سیلاب: ملک کی اقتصادیات کے لئے نقصاندہ

0

پنکج چترویدی

عجیب ستم ظریفی ہے کہ اعداد و شمار میں دیکھیں تو ابھی تک ملک کے بڑے حصوں میں مانسون ناکافی رہا ہے لیکن جہاں جتنا بھی پانی برسا ہے، اس نے تباہی کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں بارش کی مقدار بھلے ہی کم ہوئی ہے لیکن سیلاب سے تباہ ہوئے علاقوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کچھ دہائیوں پہلے جن علاقوں کو سیلاب سے محفوظ علاقہ مانا جاتا تھا، اب وہاں کی ندیاں بھی ابلنے لگی ہیں اور موسم گزرتے ہی، ان علاقوں میں ایک بار پھر پانی کا بحران چھا جاتا ہے۔ اصل میں سیلاب محض ایک قدرتی آفت ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ملک کے گمبھیر ماحول، سماجی اور معاشی بحران کی وجہ بن گیا ہے۔ ہمارے پاس سیلاب سے نمٹنے کے لیے محض راحت کام یا کبھی کبھار کچھ باندھ یا حوض کی تعمیر کا متبادل ہے، جبکہ سیلاب کے خوفناک ہونے کے پیچھے ندیوں کاکم گہرا ہونا، ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی گرمی، ریت کی کھدائی اور شہری پلاسٹک اور کھدائی، ملبے کا ندی میں بڑھنا، زمین کا کٹائو جیسی کئی وجوہار گزرتے دنوں کے ساتھ گمبھیر ہوتی جارہی ہیں۔ جن ہزاروں کروڑ روپے کی سڑک، کھیت یا مکان بنانے میں سرکار یا سماج کو زمانے لگ جاتے ہیں، اسے سیلاب کا پانی پلک جھپکتے ہی اجاڑ دیتا ہے۔ ہم نئے کاموں کے لیے بجٹ یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور زندگی دینے والا پانی اسے تباہ کر دیتا ہے۔

آسام میں ان دنوں 23 اضلع کے کوئی ساڑھے سات لاکھ لوگ ندیوں کے خوفناک روپ کی وجہ سے گھر، گاؤں سے منتقل ہو گئے ہیں اور ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ یہاں اندازہ ہے کہ سالانہ کوئی 200 کروڑ کا نقصان ہوتا ہے جس میں مکان، سڑک، مویشی، کھیت، پل، اسکول، بجلی پیداوار وغیرہ شامل ہیں۔ ریاست میں اتنی بنیادی سہولتیں دستیاب کرانے میں 10 سال لگتے ہیں جبکہ ہر سال اوسطاً اتنا نقصان ہو ہی جاتا ہے یعنی آسام ہر سال ترقی کی راہ پر 19 سال پیچھے چلا جاتا ہے۔

آبی وسائل، ندی کے فروغ اور گنگا کے تحفظ کی وزارت کے تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں پچھلی 6 دہائیوں کے دوران سیلاب کے سبب لگ بھگ 4.7 لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا اور 1.07 لاکھ لوگوں کی موت ہوئی، 8 کروڑ سے زیادہ مکان تباہ ہوئے اور 25.6 کروڑ ہیکٹیئر علاقے میں 109202 کروڑ روپے کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس مدت میں سیلاب کی وجہ سے ملک میں 202474کروڑ روپے کی سڑک، پل جیسی عوامی پراپرٹی پانی کی نذر ہو گئیں۔ وزارت بتاتی ہے کہ سیلاب سے ہر سال اوسطاً 1654 لوگ مارے جاتے ہیں، 92763 جانوروں کا نقصان ہوتا ہے۔ لگ بھگ 71.69 لاکھ ہیکٹیئر علاقہ پانی سے بری طرح متاثر ہوتا ہے جس میں 1680 کروڑ روپے کی فصلیں برباد ہوئیں اور 12.40 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1951 میں بھارت کی سیلاب متاثرہ زمین کی ناپ ایک کروڑ ہیکٹئر تھی۔ 1960 میں یہ بڑھ کر ڈھائی کروڑ ہیکٹیئر ہوگئی۔ 1978 میں سیلاب سے تباہ زمین 3.4 کروڑ ہیکٹیئر تھی، آج ملک کے کل 32کروڑ، 90 لاکھ ہیکٹر میں سے 4 کروڑ ہیکٹیئرعلاقہ باقاعدہ طور پر کی زد میں ہر سال برباد ہوتا ہے۔ 2016 میں 70 لاکھ ہیکٹیئر زمین کو باڑھ نے برباد کیا جس سے 2.4 کروڑ آبادی متاثر ہوئی۔ جائیداد کے نقصان کا سرکاری اندازہ 5675 کروڑ تھا۔ وہیں 2018 میں نقصان کی رقم بڑھ کر 95737کروڑ ہوگئی اور اس زد میں آئی آبادی کی تعداد 7.9 کروڑ تھی۔ بہار ریاست کا 73 فیصد حصہ آدھا سال باڑھ اور باقی دن سوکھا جھیلتا ہے اور یہی وہاں پسماندگی، لوگوں کے بہار چھوڑنے اور پریشانیوں کی وجہ ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ریاست کا لگ بھگ 40 فیصد حصہ ندیوں کے کی وجہ سے پست رہتا ہے۔ یہاں کوسی، گنڈک، بوڑھی گنڈک، باگھ متی، کملا، مہانندا، گنگا وغیرہ ندیاں تباہی لاتی ہیں۔ ان ندیوں پر باندھ بنانے کا کام مرکزی سرکار سے خاطر خواہ مدد نہ ملنے کی وجہ سے ادھورا ہے۔ یہاں باڑھ کی اہم وجہ نیپال میں ہمالیہ سے نکلنے والی ندیا ہیں۔ ’بہار کا سوگ‘ کہے جانے والی کوسی کے اوپری حصے پر کوئی 70 کلو میٹر لمبائی کا گھاٹ نیپال میں ہے لیکن اس کے رکھ رکھائو اور حفاظت پر سالانہ خرچ ہونے والا کوئی 20 کروڑ روپے بہار سرکار کو دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ گھاٹ بھی سیلاب سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہے۔ کوسی کے گھاٹ کی وجہ سے اس کے ساحل پر بسے 400 گائوں ڈوبنے والے علاقوں میں آگئے ہیں۔ کوسی کی ضمنی کملا- بلان ندی کے باندھ کی گادکے بھرائو سے اونچا ہو جانے کی وجہ سے سیلاب کی تباہی اب پہلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ فرکا بیراج کے ناقص ڈھانچے کی وجہ سے بھاگلپور، نوگچھیا، کٹیہار، مونگیر، پورنیا، سہرسہ وغیرہ میں سیلاب کا قہر بڑھتا جارہا ہے۔خیال رہے کہ آزادی سے پہلے انگریز حکومت نے سیلاب کے کنٹرول کے لیے بڑے باندھ کو ٹھیک نہیں مانا تھا۔ اس وقت کے گورنر ہیلٹ کی سربراہی میں پٹنہ میں ہوئے ایک اجلاس میں ڈاکٹر راجندر پرساد سمیت کئی دانشوروں نے سیلاب روکنے کے لیے باندھ کے استعمال سے منع کیا تھا۔ اس کے باوجود آزادی کے بعد ہر چھوٹی بڑی ندی پر باندھ بنانے کا کام مستعدی سے جاری ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ندیوںپر باندھ بنانے کے منفی اثرات کی کئی مثالیں پورے ملک میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
آسام میں ان دنوں 23 اضلع کے کوئی ساڑھے سات لاکھ لوگ ندیوں کے خوفناک روپ کی وجہ سے گھر، گائوں سے منتقل ہو گئے ہیں اور ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ یہاں اندازہ ہے کہ سالانہ کوئی 200 کروڑ کا نقصان ہوتا ہے جس میں مکان، سڑک، مویشی، کھیت، پل، اسکول، بجلی پیداوار وغیرہ شامل ہیں۔ ریاست میں اتنی بنیادی سہولتیں دستیاب کرانے میں 10 سال لگتے ہیں جبکہ ہر سال اوسطاً اتنا نقصان ہوہی جاتا ہے یعنی آسام ہر سال ترقی کی راہ پر 19 سال پیچھے چلا جاتا ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ اراکین پارلیمان اور وزیر اعظم دینے والی ریاست اترپردیش کی زرخیز زمین، محنتی لوگ، قدرتی وسائل کے دستیاب ہونے کے باوجودترقی کی صحیح تصویر کے نہ ابھر پانے کی سب سے بڑی وجہ ہر سال آنے والے سیلاب سے ہونے والا نقصان ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ریاست میں سیلاب کی وجہ سے 45 ہزار کروڑ روپے کی تو کھڑی فصل برباد ہوگئی۔ سڑک، عوامی املاک، انسان، مویشی وغیرہ کے نقصان الگ ہیں۔ ریاستی سرکار کی رپورٹ کو بھروسے لائق مانیںتو 2013میں ریاست میں ندیوں کے اُپھان کی وجہ سے 3259.53کروڑ کا نقصان ہوا تھا جو کہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ 2016 میںریاست کی 5.6 لاکھ ہیکٹیئر زمین باڑھ سے متاثر ہوئی، 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور 123 کروڑ کی جائیداد کا نقصان ہوا۔ 2018 میں 59 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور نقصان کا اندازہ 547کروڑ روپے کا تھا۔ 2019 میں سیلاب سے 1357 جانیں گئیں۔
نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ آفیسر (این ڈی ایم اے) کے سابق سکریٹری نور محمد کا ماننا ہے کہ ملک میں منظم سیلاب کنٹرول پر توجہ نہیں دی گئی۔ ندیوں کے کنارے واقع گائوں میں سیلاب سے بچائو کے اپائے نہیں کیے گئے۔ آج بھی گائوں میںسیلاب سے بچائو کے لیے کوئی سسٹم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں کی پہچان کرنے کی ضرورت ہے جہاں سیلاب میں گڑبڑی کے اندیشے رہتے ہیں۔ آج بارش کا پانی سیدھے ندیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ واٹر ہاروسٹنگ کا منظم نظام نہیں ہے۔ اگر ہو تو بارش کا پانی زمین میں جاسکے۔ شہری علاقوں میں نالے بند ہوگئے ہیں اور عمارتیں بند ہوگئی ہیں ایسے میں تھوڑی بارش میں شہروں میں پانی بھر جاتا ہے کئی جگہوں پر سیلاب کی وجہ سے انسانوں کی خلاف ورزی ہے۔ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسی وجہ ہے جو اچانک ہی بے موسم بہت تیز بارش کی وجہ ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک انسانی بحران ہے چنانچہ سیلاب سے بڑھتی آفت سے کنٹرول لگانے کے لئے جلد ہی کچھ کرنا ہوگا۔ کچھ لوگ ندیوں کو جوڑنے کے لئے اس کا حل تلاش کررہے ہیں۔ حقیقت میں ندیوں کے فطری بہائو، طریقوں، مختلف ندیوں کے اونچائی کی سطح میں فرق جیسے موضوعات کا ہمارے یہاں کبھی تحقیق ہی نہیں کی گئی اور اسی کا فائدہ اٹھاکر ٹھیکیدار سمینٹ کے کاروباری اس طرح کی صلاح دیتے ہیں۔ پانی کو مقامی سطح پر روکنا، ندیوں کو کم گہرا ہونے سے بچانا، بڑے باندھ پر پابندی، ندیوں کے قریبی پہاڑوں پر روک اور ندیوں کے قدرتی راستے سے چھیڑ چھاڑ کو روکنا کچھ ایسے کام ہیں جو کہ سیلاب جیسی سنگین آفت کا رخ موڑ سکتے ہیں۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS