سیلاب پھر ڈرانے لگا

0

وطن عزیز ہندوستان کے کئی علاقوں میں ہر برس سیلاب آتا ہے اور تباہی مچاکر چلا جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد لوگوں کے لیے اپنی زندگی پٹری پر لانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ اس برس بھی خطرے کے نشان سے اوپر بہتی ہوئی ندیاں ڈرانے لگی ہیں۔ آسام کی یہ ندیاں تباہی مچاتی رہی ہیں۔ اسی لیے ان کی سطح آب کے بڑھنے سے تباہ کن سیلاب کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سینٹرل واٹرکمیشن کے بلیٹن کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، جورہاٹ ضلع کے نمتی گھاٹ میں برہم پتر خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے۔ ناگاؤں کے کامپور میں کوپیلی اور کام روپ ضلع کے پوتھی ماری میں بھی ندیاں خطرے کے نشان سے اوپربہہ رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ہونے والی موسلادھار بارش کی وجہ سے آسام کے کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال بنی ہے اور خاصی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ آسام اسٹیٹ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق، 17 جون، 2023 تک آسام کے 10اضلاع کے 37,535 لوگ سیلاب سے متاثرہوچکے تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سیلاب آسام کے لوگوں کے لیے کیوں باعث تشویش ہے۔ ویسے آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کے علاوہ بہارمیں سیلاب کا آنا کوئی نئی بات نہیں۔ ہر برس سیلاب کی وجہ سے ہونے والی بڑی تباہی کا اندیشہ رہتا ہے۔ 2022 میں سیلاب نے شمال مشرق کی ریاستوںمیں بڑی تباہی مچائی تھی۔ آسام کے علاوہ میگھالیہ، اروناچل پردیش، تریپورہ میں سیلاب کے دائرۂ اثر میں کافی بڑا علاقہ آگیا تھا۔ 4,000 سے زیادہ گاؤں سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔ 113,000 ہیکٹیئر کی فصل خراب ہو گئی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں تو لوگوں کی جانوں کا اتلاف نہیں ہوا تھا پھر بھی خاصی تعداد میں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، 177 لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں یعنی سیلاب کی وجہ سے مالی نقصان ہی نہیں ہوا تھا، جانی نقصان بھی ہوا تھا اور وہ بھی بہت زیادہ۔ 2022 میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اتنا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہو۔ اس کے باوجود کیا سیلاب سے نمٹنا حکومت آسام کے لیے ترجیحات کی فہرست میں ہے، اس پر دعوے سے بہت کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ہیمنت بسوا سرما نے دیگر ایشوز پر کتنی بار بیانات دیے ہیں اور سیلاب سے نمٹنے کے کاموں کا ذکر کتنی بار کیا ہے لیکن پائیدار ترقی و خوشحالی کے لیے آسام کو سیلاب سے نجات دلانے پر سنجیدگی سے اور زیادہ سے زیادہ توجہ دینی ہوگی، سیلاب سے جان و مال کے نقصان کو بچانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا، ورنہ ہر برس آنے والا سیلاب امیدوں پرپانی پھیرتا رہے گا۔ خدشات اوراندیشوں میں مبتلا کرنے کی وجہ بنتا رہے گا۔
سیلاب کسی ایک ریاست کا مسئلہ نہیں ہے۔ آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں کی طرح بہار کے لوگوں کو بھی سیلاب پریشان کرتا رہا ہے، ان کی امیدوں پر پانی پھیرتا رہا ہے۔ بہار کے علاقے کس قدر سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقے ہیں، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ شمالی بہار کے 76 فیصد لوگ سیلاب کے اندیشوں میں جینے پرمجبور رہتے ہیں، کیونکہ اپنے علاقوں میں کب انہیں سیلاب کی بڑی تباہ کاریاں دیکھنے پر مجبور ہونا پڑے، وہ نہیں جانتے۔ وطن عزیز ہندوستان میں سیلاب کے جو علاقے ہیں، ان میں سے 16.5 فیصد علاقے بہار میں ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں جتنے لوگ سیلاب سے متاثرہوتے ہیں، ان میں 22.1 فیصد لوگ بہار میں ہیں۔ بہار کا 73.06 فیصد علاقہ سیلاب والا علاقہ مانا جاتا ہے۔ کم از کم پانچ ندیاں یعنی مہانندا، کوسی، باگمتی، بوڑھی گنڈک اور گنڈک شمالی بہار کے لوگوں کو ڈراتی رہتی ہیں، کیونکہ ان کے سیلابی تیور سے آنے والی تباہیوں کو بہارکے سیکڑوں لوگوں نے دیکھا ہے۔ بیشتر ندیوں کا معاملہ ایسا نہیں کہ جن ریاستوں میں ان کا ماخذ ہو، انہی ریاستوں میں ان کا اختتام بھی ہو۔ اسی لیے سیلاب کی مؤثرروک تھام کے لیے بہتر یہی ہے کہ مختلف پارٹیوں والی ریاستی حکومتیں سیاست سے اوپراٹھ کرمشترکہ طور پر اس مسئلے کا ٹھوس حل تلاش کریں تاکہ جہاں تک ممکن ہو، لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں، فصلوں کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS