پہلے لباس ،پھر غذا اور اب سبزی فروشوں کے مذہب پراعتراض: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہم ایک قوم ہیں اور ہم دو قومی نظریے میں یقین نہیں رکھتے اور اسی بنیاد پر ہمارے ملک کی تقسیم ہوئی۔ اس وقت سرجیکل اسٹرائک جیسی اصطلاع عام نہیں تھی ورنہ ہندوستان کی تقسیم کو یقینی طور پر سرجیکل اسٹرائک ہی کہا جاتا اور حقیقتاً یہ ہمارے وطن عزیز کی سرجیکل اسٹرائک تھی بھی۔اسے اس وقت جغرافیائی قتل (Geographical Slaughter)کہا گیا تھا۔اب پھر کچھ لوگ ہندوستان کے دونوں بڑے فرقوں یعنی ہندو اور مسلما ن دونوں کو بالکل بے بنیاد باتوں پر بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دستوری عہدے پر فائز ایک مخصوص فرقہ کے ایک شخص عوام سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ مخصوص فرقہ کے لوگوں کی سبزی فروشی کی تجارت پر اجارہ داری ہے، اسے ختم کیا جانا چاہیے۔ ہم نے اس زبان کا استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھا جو اس سلسلہ میں استعمال کی گئی بلکہ ہم نے اسے شائستگی کے دائرے میں لانے کی کوشش کی ہے، مگر اس کی روح تو اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
کون کیا کھائے گا؟ یاکیا پہنے گا ؟ کون سی تجارت کرے گا؟ کس سے سامان خریدے گا؟ کہاں رہائش اختیار کرے گا؟کہاں تعلیم حاصل کرے گا وغیرہ؟ اس کا فیصلہ کرنا ہر شہری کا اپنا حق ہے۔یہ اک نجی معاملہ ہے اور کسی بھی قانون کے ذریعہ اس کے اس بنیادی حق کو چھینا نہیں جا سکتا۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کی بیچ کی دوری کو آہستہ آہستہ ختم کرناہوگا چونکہ دونوں کے بیچ نا قابل انقطاع رشتہ ہے۔ کبھی ایک آجر ہے تو دوسرا اجیر، کبھی ایک معالج ہے تو دوسرا مریض، ایک افسر ہے تو دوسرا ماتحت، کبھی ایک استاد ہے تو دوسرا شاگرد، یعنی دونوں فرقوںکا چولی دامن کاساتھ ہے اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے۔جب آپسی تعلقات عمر رسیدہ ہوجاتے ہیںیعنی کافی طویل عرصے تک رہتے ہیں تو اس نفرت میں کمی آجاتی ہے اور زیادہ تر معاملات میں یہ نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ضرورت ہے کہ دونوں قریب سے قریب تر آئیں،ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں یا پیدا کردی گئی ہیں،انہیں دور کرنے کی کوشش کریں، صرف خوراک اور لباس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہ کریں بلکہ اسے اپنی مشترکہ تہذیب وثقافت کا جزو لاینفک سمجھیں۔ہم جب دہلی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے (1963-65) تو ہمارے کلاس فیلو منی رام گپتا ہمارے لیے تقریباً روزانہ کھانا لایا کرتے تھے اور ا سی طرح دہلی ہائی کورٹ میں ہمارے ایک ساتھی اوم پرکاش ریلیا نے(جنہیں تقسیم ہند کے بعد دیگر لوگوں کے ساتھ جامعہ ملیہ میں رکھا گیا تھا اور انہوں نے وہیں رہ کرجامعہ کے اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی)ہم جب تک دہلی ہائی کورٹ میں ملازم رہے تقریباً دس سال تک(1969-80) ہمیں اپنے کھانے میں شریک رکھا۔ ہم نے تو ان دونوں افراد سے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ بھنڈی،کدو،کریلے وغیرہ کس سے خریدے اور نہ ہی ان دونوں نے سبزی فروش کی تفصیل جاننے میں اپنا وقت ضائع کیا ہوگا۔ اُس وقت کیا اِس وقت بھی اس طرح کی بات دماغ میں آنا محض دماغی اختراع ہی ہوگا نہ کہ کچھ اور۔ مان لیجیے کہ ایک بھنڈی فروش جس کا نام فرقان ہے، اس سے یہ پوچھا جائے کہ تمہارا نام کیا ہے؟ وہ جواب میں ایک مسلم نام بتاتا ہے۔ پھر گاہک اس سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ بھنڈیاں تمہارے کھیت کی ہیں؟ اور وہ کہتا ہے کہ یہ رام پرشاد کے کھیت کی ہیں اور یہ کھیت رام پرشاد نے عبدالغفور سے بٹائی پر لے رکھا ہے اور پہلے اس کا مالک نندو مالی تھا۔اس کھیت میں بہتر پیداوار کے لیے اس نے کھاد کرتار سنگھ سے خریدی تھی۔ اب یہ حضرت کیا فیصلہ کریں گے۔ بھنڈی تو سیکولر ہوگئی۔ کھیت کا مالک مسلمان، بٹائی پر لینے والا ہندو، کھاد فروش سکھ، سبزی فروش مسلمان۔ کیا گاہک سبزی خریدتے وقت پہلے سبزی فروش کی نجی تفصیل حاصل کرے گا۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرنے والے اپنے ملک، اپنی حکومت اور اپنی سیاسی جماعت(اگر ان کا تعلق کسی جماعت سے ہے)کو بدنام کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کچھ دن بعد یہ بھی کہا جانے لگے کہ ہرے رنگ کی سبزی مت خریدو، یہ ایک مخصوص فرقہ کا پسندیدہ رنگ ہے۔ کیا غذاکو بھی اس طرح تقسیم کردیاجائے گاجیسے کہ1947میں ہندوستان کو مذہبی بنیادپرتقسیم کردیا گیا تھا جب کہ گوشت یا سبزی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی ان دونوں کو کسی فرقے، طبقے یا سماج کے کسی بھی زمرے سے منسوب کیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سبزی خور و گوشت خور ہمارے سماج کا حصہ رہے ہیں۔ وہ اپنی ضروریات کا سامان اپنی پسند کے دکانداروں سے خریدتے ہیں۔ ان کا مذہب نہیں پوچھتے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سے ہوٹل خالی پڑے ہوتے۔کوئی بھی مذہب کسی کے بھی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس طرح کی باتوں کو کسی بھی حالت میں مذہبی رنگ دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اکثریتی فرقے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتی فرقے کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے اور ساتھ ہی اقلیتی فرقے یا ان لوگوں کو جوچھوٹا موٹا کاروبار کر ہے ہیں، کوئی رکشہ چلا رہا ہے، کوئی پھل بیچ رہا ہے تو کوئی پنکچر لگا رہا ہے، ان کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کریں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان کی تعلیم، ان کی رہائش کے لیے معقول انتظامات اور سماج میں باوقار مقام حاصل کر نے کی بات کی جائے۔چونکہ ہمارا ملک مذہبی اعتبار سے ایک نہایت حساس ملک ہے لہٰذا ہر معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آگ لگانا بہت آسان ہوتا ہے، مگر آگ بجھانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس طرح کے بیانات سے سبزی والے پر تو شاید اتنا اثر نہ پڑے، لیکن مسلم دانشوروں کو سخت صدمہ پہنچتا ہے۔اگر ہم (ہم میں سب شامل ہیں نہ کہ کسی ایک فرقہ کے لوگ) میں سے کچھ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں تو سمجھئے وہ ہمارے آئین کی تمہید میں شامل عوام نے جو عہد کیا تھا وہ اس کی شکنی کر رہے ہیں اور اپنے اختیار کردہ آئین کی خود توہین کر رہے ہیں۔
تمہید: ’ہم، بھارت کے عوام،بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے کے لیے اور اس کے تمام شہریوں کو: سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف،خیال، اظہار، عقیدہ،مذہب اور عبادت کی آزادی،بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات حاصل کرانے کے لیے اور اُن سب کے مابین فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کو یقینی بنانے والی اخوت کو فروغ دینے کے لیے متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہوئے اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج مورخہ26 نومبر،1949(متی مارگ شیرش شُکلا سپتمی، سموت 2006وکرمی )کو ذریعہ ہٰذا ا س آئین کو اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔‘
اس تمہیدمیںمستعمل الفاظ جیسے سماجی ومعاشی انصاف، مساوات،اخوت،فرد کی عظمت وغیرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم کسی بھی فرقہ کے تعلق سے امتیازی رویہ اختیار کریں اور کسی بھی شعبۂ حیات میں کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ کریں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکر یٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS