نئی دہلی (ایس این بی): سپریم کورٹ نے جمعہ کو دہلی پولیس کے اس حلف نامہ پرعدم اطمینان کا اظہار کیا، جس میںکہا گیا تھا کہ گزشتہ سال یہاں منعقدایک پروگرام کے دوران کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی تھی۔عدالت عظمیٰ نے اس کے ساتھ ہی دہلی پولیس کو ’بہترنیا حلف نامہ ‘4مئی تک داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ اس معاملے کی اگلی سماعت 9مئی کو کرے گا۔ دہلی پولیس نے عدالت عظمیٰ کو بتایاتھا کہ19 دسمبر کو ہندو یوا واہنی کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں ’کسی کمیونٹی کے خلاف کوئی خصوصی لفظ نہیںبولے گئے تھے ۔ عدالت عظمیٰ سینئر صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج اور سینئر وکیل انجنا پرکاش کے ذریعہ داخل ایک عرضی پر سنوائی کر رہی تھی ،جنہوں نے مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کی ایس آئی ٹی کے ذریعہ ’آزادانہ ،قابل اعتماد اور غیر جانب دارانہ جانچ‘ کے حکم دینے کی درخواست کی ہے۔
جسٹس اے ایم خانولکر اور جسٹس ابھے ایس اوکا کی بینچ نے کہاکہ حلف نامہ پولیس ڈپٹی کمشنر کی طرف سے داخل کیا گیا ہے۔ ہمیںامید ہے کہ وہ باریکیوں کو سمجھ گئے ہیں۔ کیا انہوں نے صرف جانچ رپورٹ کی کاپی پیش کردی یا دماغ لگایا ہے۔ کیا آپ کا بھی یہی رخ ہے یا یہ سب انسپکٹر سطح کے افسر کی جانچ رپورٹ کی کاپی ہے ۔ بینچ نے سوال کیا کہ کیاعدالت کے سامنے حلف نامہ پر ایسارخ اپنایا جاسکتا ہے اور جاننا چاہا کہ حلف نامہ کی تصدیق کس نے کی اور کیا دہلی پولیس اسے صحیح نتیجے کے طور پر اعتراف کر رہی ہے ۔
دہلی پولیس کی طرف سے پیش کردہ سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایس نٹراج نے کہا کہ وہ اس پردوبارہ غور کریں گے اور نیا حلف نامہ داخل کریں گے۔بنچ نے کہا کہ اے ایس جی نے ایک بہتر حلف نامہ داخل کرنے کےلئے افسروں سے احکامات حاصل کرنے کا وقت مانگا ہے ۔دو ہفتے کا وقت دینے کی اپیل کی گئی ہے ۔اس معاملے کو 9مئی کو لسٹیڈ کریں۔ ’بہترنیا حلف نامہ‘ 4مئی کو یا اس سے پہلے داخل کیا جائے۔
جمعہ کوسماعت شروع ہوتے ہی عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ کی توجہ تقریر کے نکات اور سب انسپکٹر (پولیس تھانہ اوکھلا صنعتی علاقہ) کی جانچ رپورٹ کی طرف دلائی ۔انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس کے جوابی حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانچ کی گئی ہے اور یہ کہ لوگ اپنی کمیونی کی اخلاقیات کو بچانے کےلئے جمع ہوئے تھے، جو تقریر سوالوں میں ہے ،اس میں وہ کہتے ہیں ،ہم مارنے کےلئے تیار ہیں،اور دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کمیونٹی کی اخلاقیات کو بچانے کےلئے ہے؟ قابل احترام جج موصوف اسے سنوائی کےلئے طے کرسکتے ہیں اور طے کرسکتے ہیں کہ آئینی طور سے اخلاقیات کیا ہے۔ بنچ نے آئینی افسر سے پوچھا کہ کیا کسی سینئر افسر نے حلف نامہ کی تصدیق کی ہے۔بنچ نے کہا کہ کسی سینئر افسر نے اسے دیکھا ہے ؟ اس کی کس نے تصدیق کی ہے ؟ کیا اس بارے میں کوئی غور کیا گیا ہے کہ کیا عدالت کے سامنے حلف نامہ میں یہ رخ اپنایا جاسکتا ہے؟ یہ حلف نامہ پولیس ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ داخل کیا گیا ہے؟ وہ اس صورتحال کا اعتراف کرتے ہیں ؟ بنچ نے کہا ،کیا یہ ان کی سمجھ ہے یا صرف جانچ افسر کی رپورٹ کو پھر سے پیش کیا گیا ہے؟ ہم آپسے اس عدالت کے سامنے پولیس ڈپٹی کمشنر کے ذریعہ حلف نامہ کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔عدالت عظمیٰ نے اے ایس جی سے پوچھا کہ کیا دہلی پولیس اسے صحیح نتیجہ مان رہی ہے۔ ؟
بنچ نے کہاکہ یہ سب انسپکٹر سطح کے افسر کے ذریعہ تیار کی گئی جانچ رپورٹ کی کاپی ہے یا یہ آپ کا رخ ہے ۔اگر ایسا ہے تو ہمیں پولیس کمشنر سے اس پر غور کرنے کےلئے کہنا ہوگا کہ کیا آپ کا بھی یہی رخ ہے؟ نٹراج نے کہا کہ وہ معاملے پر پھر سے غور کریں گے اور نیا حلف نامہ داخل کریں گے۔
عدالت عظمیٰ میں داخل ایک جوابی حف نامہ میں دہلی پولیس نے کہا تھا کہ عرضی گزاروں نے مبینہ واردات کے متعلق کوئی کارروائی کرنے کےلئے ان سے رابطہ نہیں کیا تھا اور سیدھے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا اور اس طرح کی روایت کا اعتراف نہیں کیا جانا چاہئے۔دہلی پولیس نے اپنے حلف نامہ میں کہا تھا کہ اسی موضوع پر کچھ شکایتیں درج کی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پچھلے سال 19دسمبر کو ہندو یوا واہنی کے ذریعہ یہاں منعقد ایک پروگرام میں نفرت انگیز تقریر کا استعمال کیا گیا تھا اور ان سبھی شکایتوں کو مجموعی طور پر شامل کر جانچ شروع کی گئی تھی۔اس نے کہا تھا کہ ایک سنجیدہ جانچ کے بعد ویڈیو میں کوئی دم نظر نہیں آیا۔ اس نے کہا تھا کہ پولیس نے شکایتوں کی ابتدائی جانچ کرنے کے بعد اور دہلی میں دی گئی نفرت انگیز تقریر کے متعلق ویڈیو لنک اور اٹیچ ویڈیو کی جانچ کرنے کے بعد پایا کہ شکایت گزار کے ذریعہ شکایت میں شامل کسی بھی گروپ ،کمیونٹی ،ذات، مذہب یا عقیدہ کے خلاف کوئی نفرت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔تقریر ایک مذہب کو ان برائیوں کا سامنا کرنے کےلئے خود کو تیار کرنے کے مضبوط بنانے کے بارے میں تھی، جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں ،جوکہ کسی خاص مذہب کے قتل عام کی اپیل سے کسی بھی طرح سے جڑا نہیں ہے ۔
سپریم کورٹ نے اس سے پہلے اترا کھنڈ سرکار کو اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کےلئے کہا تھا ،جب اس نے کہا تھا کہ پچھلے سال دسمبر میں ہری دوار میں ایک پروگرام کے دوران مبینہ طور سے ہیٹ اسپیچ کے تعلق سے چار ایف آئی آر درج کی گئی ہیں ۔اس نے 12جنوری کو اس عرضی پر نوٹس جاری کیا تھا ،جس میں ہری دوار اور راجدھانی دہلی میں منعقد 2 پروگراموں کے دوران ہیٹ اسپیچ دینے والوں کے خلاف جانچ اور کارروائی کو پابند بنانے کا حکم دینے کی اپیل کی گئی تھی ۔عرضی میں خاص طور سے 17اور 19دسمبر 2021کے درمیان ہری دوار اور دہلی میں دی گئی ہیٹ اسپیچ کا ذکر کیا گیا تھا ۔
ایک پروگرام کا انعقاد ہری دوار میں یتی نرسنہا نند نے کیا تھا اور دوسرا دہلی میں ہندو یوا واہنی کے ذریعہ کیا گیا تھا، جس میں مبینہ طور سے ایک کمیونٹی کے ممبروں کے قتل عام کی اپیل کی تھی ۔اترا کھنڈ پولیس نے پچھلے سال 23دسمبر کو سنت دھرم داس مہاراج ،سادھوی انناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے ،یتی نرسنہا نند اور ساگر سدھو مہاراج سمیت کل 6 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی ۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS