اچھی باتوں سے ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔ اس حقیقت کوسمجھنے والے لیڈران بڑی باتیں تو کم کرتے ہیں، البتہ بڑے کام کرتے ہیں۔ کئی باروہ اپنے ملک اور عوام کے مفاد کی خاطر من بھاونے بیانات نہیں دے پاتے، اقدامات نہیں کرپاتے۔ ایسا ہی کچھ یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے نظر آرہا ہے۔ سبھی یوروپی ملکوں کے لیڈروں نے اس جنگ کے خلاف ایک طرح کا بیان نہیں دیا ہے۔ ان کے سر بدلے ہوئے نظر آئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ کی پوزیشن پہلے والی نہیں رہ گئی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب روس بھی دودہائی پہلے والا روس نہیں ہے۔ اس درمیان روس نے یہ سمجھا ہے کہ اس کی اصل طاقت کیا ہے اوراس طاقت کا استعمال کیسے کیا جانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ اس نے دیگر ملکوں کی ضرورتوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے اور ان کی ضرورتوں سے فائدہ اٹھانے میں وہ کامیاب رہا ہے۔ یہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی دوراندیشی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے کہ یوروپ گیس کے لیے بڑی حد تک رو س پر انحصار کرتا ہے۔ روس اگر وقت پر یوروپی ملکوں کو گیس کی سپلائی نہ کرے تو ان کے لیے جاڑے کے دن نکالنا مشکل ہو جائے۔
گیس کے لیے روس پر یوروپ کا انحصار کس حد تک ہے، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 2020 میں یوروپ کی ضرورت کا 40 فیصد گیس روس نے سپلائی کیا تھا۔ اس سال جرمنی اس کی گیس کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کے جنگ چھیڑنے کے بعد جرمنی نے فوراً اس تیور کا اظہار نہیں کیاتھا جو تیور برطانیہ نے دکھائے تھے۔ سوال یہ ہے کہ برطانیہ بھی تو یوروپ کا ہی ایک ملک ہے۔ اس نے پھر روس کو تیور کیوں دکھائے؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ برطانیہ، امریکہ کے بہت قریب ہے اور امریکہ اس کا خیال بھی رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ برطانیہ کے روس سے زیادہ اچھے تعلقات پہلے بھی نہیں تھے۔ اوروجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ روس کی گیس پر اس کا انحصار برائے نام ہے، کیونکہ وہ روس سے صرف 4 فیصد گیس ہی امپورٹ کرتا ہے۔ روسی گیس کا دوسرا بڑا خریدار اٹلی،پھر بیلاروس اور پھر ترکی ہے۔ روسی گیس کے بڑے خریداروں میں یوروپی ملک نیدرلینڈس اور ہنگری بھی شامل ہیں۔ اسی لیے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ یوروپ میں جاڑا شروع ہونے کے بعد روس کی پوزیشن اور مستحکم ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یوکرین جنگ میں اور بھی شدت آجائے گی۔ اسی لیے دعا یہی کی جانی چاہیے کہ جنگ اس سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔ دعا اس لیے کہ جنگ ختم کرانے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ n
اندیشہ جنگ کی شدت اختیار کرنے کا!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS