باپ: ایثار و قربانی کا پیکرِ مجسم

0

مفتی رفیق احمد کولاری

جس طرح لفظ ماں سنتے ہی محبت،خلوص اور ممتا یاد آتی ہے۔ کچھ یوں ہی لفظ باپ یا والد سنتے ہی ایثار،شفقت اور قربانی یاد آتی ہے۔ والد وہ عظیم پیکر اخلاص کا نام ہے جو ہمہ وقت اپنی اولاد کی خاطر ہر نفیس وخسیس تجنے کو آمادہ رہتا ہے۔ دنیا میں کوئی اتنا مخلص اور بے لوث نہیں ملیگا جتنا ایک باپ رہتا ہے۔ نہ اسے اپنے آرام وراحت کی فکر رہتی ہے، نہ اسے اپنی خواہشات وضروریات کی تکمیل کی خواہش رہتی ہے۔باپ ایک ایسا محافظ ہے کہ جو ساری زندگی اولاد کی نگہبانی کرتا ہے۔ بچوں کے روشن مستقبل کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ بچوں کی کامیابی وسرخروئی پر اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔جب اس کی اولاد کسی منصب پر فائز ہوتی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور خوشیوں کا جشن مناتا ہے گویا اسے دنیا کی پوری دولت مل گئی۔والد اس شخصیت کا نام ہے جو چاہتا ہے کہ میری اولاد وہ کام کریں جو میں نہیں کرسکا۔ اسی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ ان پڑھ اور جہالت کی بھول بھلیوں میں ٹامک ٹوئیاں کھاتے ہوئے زندگی گزارتا ہے لیکن اپنے بچوں کو بڑی محنت وکاوش سے پڑھاتا ہے۔ ان کی خوشیوں میں اپنی خوشیوں کو دیکھتا ہے۔ ان کی مسکراہٹ میں اپنی مسکراہٹ محسوس کرتا ہے۔ان کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے۔باپ ایک سائبانِ شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے بچے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ کرم سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آپڑا ہے۔ باپ دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاص، ایثار، محنت، قربانی کا عظیم پیکر بشری کا نام ہے۔
اسی وجہ سے جہاں قرآن نے ماں کی عظمت ورفعت شان کو بیان کیا وہیں پر باپ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ان دونوں کا مقام ورتبہ بلند وبالا ہونے کی ہی وجہ سے رب کریم نے اپنی عبادت کے فورا بعد والدین کے احترام وتعظیم کا فرمان جاری فرمایا۔ اور ایک جگہ نہیں بلکہ بارہا قرآن نے اس حکم کو دہرایا۔ جیسا کہ رب قدیر فرماتا ہے ”رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنا۔(سورۃ بنی اسرائیل:23)
قرآن وحدیث کے مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر واضح ہو جائے گا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے ویسی پوری دنیا میں پائے جانے والے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ فی زماننا غیر مسلم ممالک میں بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں کہ ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا سہارا بننے کے لئے تیار نہیں ہوتی،اسی وجہ سے وہاں کی حکومتیں ایسی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہیں جہاں بوڑھے اور بیمار والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں۔والد کا وجود اولاد کے لیے بیپناہ عزیز اور ضروری ہوتا ہے۔ والد دعائووں کا خزینہ ہوتا ہے۔ والد کی دعائیں ہمیں ہمیشہ لیتے رہنا چاہیے کیونکہ ان کی دعائیں خاموش سمندر کی طرح ہوتی ہے جس کی لہروں میں تلاطم پنہاں ہوتی ہے۔ اب بھی وقت ہے جائیے کمائیے اپنی جنت۔ اگر وقت گزر جائے تو واپس نہیں آتا صرف یادیں رہ جاتی ہیں اسی لئے ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے ان قیمتی لمحات کا فائدہ اٹھانا چاہیے ان کا ادب و احترام کرنا چاہیے، ان کے لئے راحت کا ذریعہ بننا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھیں تا کہ ان کے دل سے دعائیں نکلیں۔ ماں باپ کی خدمت سے زندگی میں خوشحالی آتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، اولاد فرمانبردار ہوتی ہے، دعائیں اور عبادت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔
جس طرح قرآن نے والدین کی عظمت کو اجاگر کیا اسی طرح رحمت عالم ؐ نے بھی احادیث مبارکہ کے ذریعے باپ کی عظمت کو خوب واضح کیا تاکہ اولاد ان کی قدر کر سکیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ تمہیں اختیار ہے خواہ اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے اس دروازہ کوضائع کردو یا اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر اس دروازہ کی حفاظت کرو (جامع ترمذی) سرور کونین ؐ نے فرمایا رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے،رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(الجامع الصغیر) ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو‘‘۔
اب وہ واقعہ بھی سنئے جس کے ذریعے سرور کونین ؐ نے باپ کی عظمت ومقام کو واضح کیا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صحابی نے رسول ؐ سے اپنے باپ کی شکایت کی کہ یارسول اللہ ؐ میرا باپ مجھ سے پوچھتا نہیں اور میرا سارا مال خرچ کردیتا ہے۔ آپ ؐ نے ان کے والد محترم کو بلوایا ۔جب ان کے والد کو پتہ چلا کہ میرے بیٹے نے رسول ؐ سے میری شکایت کی ہے تو دل میں رنجیدہ ہوئے اور رسول ؐ کے خدمت میں حاضری کے لئے چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھائو‘‘۔
ان احادیث نبویہ سے یہ بات روشن ہوگئی کہ باپ کا مقام کتنا بلند وبالا ہے۔ آج کل بعض احباب جب پڑھ لکھ کر بڑے ہوجاتے اور بڑے بڑے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو وہ اپنے غریب باپ کو فراموش کرنے کے ساتھ جب ان سے انکے والد یا باپ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ غریب ومزدور باپ کو باپ کہنے کو ننگ وعار محسوس کرتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اپنے آپ کو کسی اور کی طرف نسبت کرتے ہوئے کسی غیر کو باپ بتاتا ہے۔ تاکہ سماج میں اس کا مقام برقرار رہے۔ اس سے بڑا اور کیا ننگ وعار ہوسکتا ہے۔ اب ان جیسی اولاد کے بارے میںآقائے دوجہاں ؐ فرماتے ہیں جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔(مسلم و بخاری)
اس حدیث کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے والد کی قربانیوں کو پہچانیں۔ ان کی قدر کریں۔ ہمیشہ ان کی خدمت کریں اور خدمت کو زندگی کی سعادت سمجھیں اور ہرگز ان کو یا انکی خدمت کو بوجھ وگراں نہ سمجھیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS