زین شمسی
کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کا سب سے نایاب نسخہ سیاست کے پاس ہے۔سیاست کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ سامنے رکھ دیتی ہے،اس طرح پہلا مسئلہ عوام کی یادادشت سے ڈلیٹ ہو جاتا ہے اور ذہن بڑے مسئلے کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔ پھر اس بڑے مسئلے کے ساتھ سیاست اور سماج الجھتا رہتا ہے اور جب اسے لگتا ہے کہ یہ سکہ رائج الوقت نہیں بن سکتا تو پھر اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔ایک وقت میں کانگریس نے اس نسخہ کو خوب آزمایا اور اب بی جے پی اسی راہ پر گامزن ہے۔ عوام نرے بے وقوف پہلے بھی رہے اور اب بھی ہیں۔ بی جے پی کے عروج کی داستان کانگریس کے زوال کی کہانی پر مبنی نہیں ہے بلکہ کانگریس کے بنائے گئے مسئلے کو بڑے مسئلے میں تبدیل کر دینے سے شروع ہوئی ہے۔اگر صرف مسلمانوں کی بات کی جائے تو انہیں ڈرایا جاتا رہا ہے کہ جن سنگھ آجائے گا ،بی جے پی آجائے گی۔ اس لیے ہمیں ووٹ دو۔ وہ ووٹ دیتے رہے اور کانگریس چپکے سے انہیں سچر کمیٹی کی رپورٹ دے گئی اور زور شور سے ہندوستان کی حکومت بی جے پی کو سونپ گئی۔اب بی جے پی ہندوئوں کو ڈرا رہی ہے کہ ہمیں ووٹ دو ورنہ بھارت پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ مسئلہ وہی رہا، شکل بدل گئی۔ اب یہ کسی سے چھپا ہوانہیں ہے کہ یہ دھوپ میں مارتی ہے اور وہ چھائوں میں۔
دراصل مسلمانوں میں قائد کا فقدان تقسیم ہند کے بعد سے ہی جاری رہا۔ مسلمانوں کا کوئی قائد ہی نہیں رہا جو اپنی کمیونٹی کو عروج کی منزل تلک لے جاتا۔ وہ تو مسلمانوں کی خودداری اورمومنانہ انداز فکر تھا کہ بغیر قائد کے بھی وہ ہندوستانی سیاسی بساط پر مظلوموں کی حمایت میں کھڑے رہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ وہ کسے ووٹ دیں اور کسے نہیں۔بغیر لیڈر کے اس طبقہ کا سیاسی رجحان ایک سا ہونا حیرت میں ڈالنے والا ہے۔مسلسل ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کے جان و مال کا نقصان اور بالآخر بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کو طلاق دے دی اور علاقائی پارٹیوں سے منسلک ہوگئے۔ یہ نہ کسی کے کہنے پر ہوا اور نہ ہی کسی دبائو میں۔ ظاہر سی بات ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا اجتماعی فیصلہ تھا جو انہوں نے کہا سنی سے نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی سے لیا۔ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ جانے سے مزید نقصان کچھ یوں پہنچا کہ انہیں ذات پات کی سیاست کا حصہ بننا پڑا۔ اس نے یوپی میں مایا وتی کو اور بہار میں لالو یادو کو سر پر چڑھایا۔ بعد ازیں ان کا یہ خمار ٹوٹ گیا کہ ان کے ساتھ رہنے سے ان کا کچھ بھلا ہوجائے گا۔ہوا یہ کہ یوپی اور بہار میں یادو اور دلت مضبوط ہوگئے اور مسلمان پھر ٹھگے سے رہ گئے۔ ادھر کانگریس بغیر مسلمانوں کے اپنا وجود بچانے کے لیے جدو جہد کرتی نظر آئی۔
تقسیم ہند کے بعد نہرو کے وعدے اور مسلم علما و دانشور کے کانگریس کی حمایت کے ارادے 70-80کی دہائی آتے آتے آہستہ آہستہ کمزور پڑتے گئے۔اس کے باوجودسماج وادی آندولن کی آندھی میں بھی مسلمان ووٹ پوری طرح منتشر نہیں ہو پایا، کیونکہ سماج وادیوں نے جن سنگھیوں کو بھی اسٹیج فراہم کر دیا تھا، جسے مسلمانوں نے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا اور خاموش رہے۔ادھر کانگریسیوں نے مسلمانوں کو ٹیکن فار گرانٹ لے لیا کہ ان کے پاس سیاسی متبادل ہی نہیں۔ اسی لیے کانگریس نے مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود کو ترجیحی نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ادھر آر ایس ایس اس بات کو سمجھ گیا کہ بھارت کے جمہوری اور سیکولر مزاج میں کانگریس کو سیاسی طور پر مات دینا آسان نہیں کیونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کا اس پر اثر ہے۔ او بی سی اور ایس سی منو وادی نفسیات سے الجھ رہے ہیں اور سماج میں اپنا وقار چاہتے ہیں، ایسے میں انہیں اپنا بنانا آسان نہیں ہے۔ اس لیے آر ایس ایس نے سماجی طور پر ذہن سازی کے لیے اپنے عملے متعین کیے۔ اس سماجی کام میں اس نے اسکولوں کی تعمیر کی، سماجی فلاح و بہبود میں اپنے داخلے کو یقینی بنایا، ساتھ ہی ساتھ سیکولر سماج میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کئی طرح کی رسومات کو مذہبی فریضہ بنا کر پیش کیا۔ ان کے اسکولوں اور اسکیموں کے ذریعہ پیدا ہوا ذہن جب بڑا ہوا تو اس نے سماجی سروکار کو سیاسی سروکار میں بدلنے کے لیے جن سنگھ کی شروعات کر دی۔ جس کی عملی کوششوں نے بالآخر بی جے پی کو مضبوط اکثریت کے ساتھ ہندوستان کا تاجدار بنا دیا۔ اِدھر مسلمانان ہند کانگریس پر تکیہ کرکے آرام طلبی میں دین و دنیا کی پناہ ڈھونڈتے رہے۔
اب جبکہ چڑیا چُگ گئی کھیت تو راستے نہیں مل رہے ہیں۔ کرناٹک انتخاب نے انہیں ایک راستہ دکھایا ہے۔ علاقائی پارٹی جے ڈی ایس کو چھوڑ کر وہ کانگریس کے ساتھ گئے، یہ سوچ کر کہ کانگریس ان کا 4فیصد ریزرویشن بحال کر دے گی اور بجرنگ دل پر پابندی لگا دے گی۔یہ ایک سوچ ہے جو سوچتے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں کے فیصلے جلد نہیں بدلا کرتے۔ نام و نشان مٹانے کی سیاست، بلڈوزر چلانے کی حماقت،حجاب، اذان، طلاق اور نہ جانے کیا کیا کرنے کی جسارت، درسی کتابوں سے تاریخ مٹانے کی جہالت، ایسے اتنے کارنامے ہیں جو یہ حکومت کر چکی ہے اورجب تک رہے گی،کرتی رہے گی۔تو کیا اس کے بعد اگر کانگریس بر سراقتدار آتی ہے تو کیا یہ سب رد ہوگا۔ یہ کہنا فضول ہے۔
ارشد مدنی صاحب کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ انہوں نے فکر ملت میں اپنی زندگی بسر کی ہے، مگر حیرت ہوئی کہ وہ اترپردیش چھوڑ کر جہاں مسلمانوں پر ظلم کاپہاڑ گرم ہے مہاراشٹر میں اجلاس منعقد کرتے ہیں اور وہاں کرناٹک میں جیت کی ذمہ داری جمعیۃ کے سر ڈال دیتے ہیں اور بجرنگ دل پر پابندی کی بات کہہ کر آر ایس ایس کی افواہوں کے سیاسی موقف کو ہوا دے دیتے ہیں۔ امیر الہند اگر مسلمانوں کی بہتری چاہتے ہیں تو انہیں قوم میں تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کو ہوا دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاست مسلمان پہلے بھی سمجھتے تھے، اب بھی سمجھتے ہیں۔ بس اپنی سمجھ کو مزید مضبوط بنانا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اقلیت کی بہتری قومی پارٹیوں کے ساتھ جانے میں ہے نہ کہ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ رہنے میں۔ مقدر تو تدبر سے ہی بدلتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]