مولانا ندیم الواجدی
ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا:اس پر قابو رکھو، حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو الفاظ ہم بولتے ہیں یا جوبات ہم کرتے ہیں اس پر بھی ہمارا مواخذہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تیری ماں تجھے گم کرے، دوزخ کی آگ میں اوندھے منھ گرائے جانے والے (زیادہ تر) اپنی زبان کی بے اعتدالیوں کی پاداش میں گرائے جائیںگے ( ترمذی: ۹/ ۲۰۲، رقم الحدیث: ۲۵۴۱، مسند احمد: ۴۵/ ۱، رقم الحدیث: ۲۱۰۰۸) ۔ قرآن کریم میں روزہ کا مقصد یہ بیان فرمایاگیا ہے کہ ’’ تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘( البقرۃ: ۱۸۳)۔ بھوکا اور پیاسا رہنا تو روزہ کی ظاہری کیفیت ہے ، باطنی حقیقت تو یہ ہے کہ روزہ دار ان کیفیات کے حصول کی خاطر سرگرداں رہے جن کی انتہا تقوی ہے۔ روزہ ہمیں سکھاتا ہے کہ نفس کی خواہشات اورجسم کی ضروریات پر کس طرح قابو پایا جائے۔ روزہ داروں کو اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کس طرح گناہوں سے بچیں، نیکیوں کے خوگر بنیں، اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے بجائے رب العالمین کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی بنیں۔
مسلم معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ زبان کے جھگڑے رمضان میں ہوتے ہیں، ذراذراسی بات پر لوگ غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور زبان کو اول فول بکنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا یہ رمضان کا احترام ہے؟ کیا یہ روزے کا ادب ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رمضان کے مہینے میں خاص طورپر مسلم معاشرے کی فضا نورانی ہوتی۔
اس میں شک نہیں کہ اکثر برائیوں کی جڑ زبان ہے ۔ اگر اس پر قابو پالیا جائے توآدمی بہت سے گناہوں سے محفوظ رہ سکتاہے۔ صوفیائے کرام نے زبان کو درندے سے، سانپ سے، اور آگ سے تشبیہ دی ہے، یہ تشبیہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ زبان کا خطرہ کسی درندے کی درندگی، سانپ کی اذیت اورآگ کی شدت سے کم نہیںہے۔ اگر کوئی ان تین میں سے کسی ایک کی پکڑ میں آجاتا ہے تو مشکل ہی سے محفوظ رہتا ہے۔ حضرت ابو بکر الصدیقؓ اپنی زبان کو پکڑتے اور روتے ہوئے فرمایا کرتے اسی نے مجھے ہلاکتوں میں ڈالا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ زبان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے اے زبان! اگر تو اچھی بات کرے گی تو فائدے میں رہے گی، خاموش رہے گی تو شرسے محفوظ رہے گی، اللہ تعالیٰ اس مسلمان کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے جس نے اپنی زبان کو بدگوئی سے روکا، غیبت سے منع کیا، بے ہودہ گوئی سے دوررکھا، اور حرام سے بچایا، اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بولنے سے پہلے اپنے الفاظ پر غور کرتا ہے، اپنے کلام پر دھیان دیتاہے، اوراپنے جملوں کو عقل وخردکے ترازو میں تول کر باہر نکالتا ہے، اپنی گفتگو کو سجاتا سنوارتا ہے۔ زبان بہ ظاہر ایک چھوٹا سا عضو بدن ہے، لیکن اس سے نکلا ہو ایک لفظ ہی اس کے کفر واسلام کا شاہد اور اس کی طاعت ومعصیت کا آئینہ دار ہے۔ کسی صحابی نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا’’یا رسول اللہ زیادہ تر لوگ کس وجہ سے دوزخ میں جائیںگے ‘‘فرمایا ’’ زبان اور شرم گاہ کی وجہ سے‘‘ (ترمذی:۷/۲۸۶، رقم الحدیث: ۱۹۲۷)۔
حضرت ابو سعید الخدریؓ کی روایت ہے جب آدمی صبح سوکر اٹھتا ہے تو اس کے تمام اعضاء بدن زبان پر لعن طعن شروع کردیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرتی رہتا، اس لیے کہ اگر توسیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیںگے اور تو ٹھیری چلے کی تو ہم بھی ٹھیرے چلیںگے (مسند احمد بن حنبل:۲۴/ ۱۷، رقم: ۱۱۴۷۲)۔ حضرت انس بن مالک سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں : بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب درست نہ ہو اور قلب اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک زبان صحیح نہ ہو، بندہ اس وقت تک جنت میں نہیںجائے گا جب تک اس کے پڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہیں ہوںگے ( مسند احمد ابن حنبل:۶/۱۸۹، رقم: ۳۶۷۲)۔ ایک روایت میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیاگیا ہے ’’ جو شخص یہ ضمانت دے کہ وہ دونوں جبڑوں کے درمیان اوردونوں ٹانگوں کے درمیان وقع اعضاء پر قابو رکھے گا میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘ (صحیح البخاری:۲۰/ ۱۱۵، رقم: ۵۹۹۳)۔علامہ ابن القیم الجوزیؒ نے اپنی کتاب ’’ الجواب الکافی‘‘ میں زبان کے متعلق لکھا ہے: شیطان اپنے کارندوں سے کہتا ہے کہ تم زبان کے محاذ پر ڈٹ جاؤ، یہی محاذ زبردست ہے اور اسی کے ذریعے ہم فتح وکامرانی حاصل کرسکتے ہیں، اور پھر دو طرح سے لڑائی لڑو، ایک تو اس طرح کہ زبان کو اس کلام پر لگادو جو آدمی کے لیے نقصان دہ ہو، اگر نقصان دہ نہ ہو تو نفع بخش بھی نہ ہو، دوسرے یہ کہ اسے نفع بخش کلام سے غافل کردو، جیسے اللہ کا ذکر، استغفار، تلاوت، وعظ ونصیحت، درس وتدریس، اس محاذ کے یہ دونوں حملے زبردست ہیں، یہ پرواہ مت کرنا کہ تمہیں کس محاذ پر کامیابی ملنی چاہئے اور کس پر نہ ملنی چاہئے، دونوں میں سے کسی ایک پر بھی تم کامیاب رہے تو یہ جنگ تم ہر حال میں جیتوگے، بد گو انسان تمہارا بھائی، تمہارا دست وبازو، تمہارا معین ومدد گارہے، حق گوئی سے محروم شخص بھی تمہارا بھائی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلا بولنے والا شیطان ہے اور دوسرا گونگا شیطان ہے۔
بہر حال زبان کی آفتیں بے شمار ہیں اسی لیے بزرگان دین خاموشی ہی میں عافیت سمجھتے تھے، حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں : سب سے بڑی عبادت خاموشی ہے، پھر طلب علم ہے، پھر عمل ہے، پھر علم کی حفاظت اور اشاعت ہے۔ علی بن بکارؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے دو دروازے بنائے ہیں مگر زبان کے چار دروازے ہیں اوپر نیچے کے ہونٹ دو دروازے، اور اوپر نیچے کے دانت دو دروازے۔ شفیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن المبارکؒ سے سوال کیاگیا کہ آپ نماز پڑھ کر فوراً واپس تشریف لے جاتے ہیں، ہمارے پاس کیوں نہیں تشریف رکھتے ، فرمایا میں مسجد سے اٹھ کر صحابۂ کرام اور تابعین کے پاس جاکر بیٹھ جاتاہوں، ان کی کتابیں پڑھتا ہوں، ان کی روایات وآثار دیکھتا ہوں، تمہارے ساتھ بیٹھ کر کیا کروں، تم لوگ تو غیبت ہی کروگے۔ حضرت عمر ابن الخطابؓ نے حضرت احنف بن قیسؒ سے ارشاد فرمایا: اے احنف ! جو زیادہ بولتا ہے اس سے زیادہ لغزشیں سرزد ہوتی ہیں اور جس کی لغزشیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیا ختم ہوجاتی ہے اور جس کی حیا جاتی رہتی ہے اس کے دل سے خوفِ خدا جاتا رہتا ہے اور جس کے دل سے خوف خدا ختم ہوجاتا ہے اس کا دل مرجاتاہے، حضرت عقبہ ابن عامرؓ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسو ل اللہؐ نجات کس چیز میں ہے، فرمایا: ’اپنی زبان پر قابو رکھو، گھر میں بیٹھ جاؤ اوراپنی غلطیوں پر روتے رہو‘ (ترمذی: ۸/ ۴۲۷، رقم الحدیث: ۲۳۳۰، شعب الایمان للبیہقی: ۲/ ۳۶۲، رقم: ۸۱۸)۔
جب عام حالات میں زبان کو قابو میں رکھنا اس قدر ضروری ہے تو روزے کی حالت میں کتنا ضروری ہوگا، جو شخص جھوٹ بولتا ہو، غیبت کرتاہو، سب وشتم کرتاہو، خرافات بکتا ہو اس کا روزہ کس طرح سلامت رہ سکتا ہے، اسی لیے حدیث میں فرمایاگیا ’’ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزے سے ہو تو اسے چاہئے کہ وہ گالم گلوچ نہ کرے نہ چیخ پکار کرے اور اگر کوئی شخص اسے گالی دے تو یا لڑنا چاہے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ ( صحیح البخاری: ۶/ ۴۷۴، رقم: ۱۷۷۱، صحیح مسلم: ۶/ ۱۷، رقم: ۱۹۴۴)۔
مسلم معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ زبان کے جھگڑے رمضان میں ہوتے ہیں، ذراذراسی بات پر لوگ غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور زبان کو اول فول بکنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا یہ رمضان کا احترام ہے؟ کیا یہ روزے کا ادب ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رمضان کے مہینے میں خاص طورپر مسلم معاشرے کی فضا نورانی ہوتی۔ ہر طرف صبر وسکون چھایا ہواہوتا، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اورغم گساری کرتے ہوئے نظر آتے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا اور خیر کا معاملہ کرتے ہو ئے ملتے ، اس کے برعکس لڑتے بھڑتے زیادہ نظرآتے ہیں، اس پر ہم سب کو سوچنا چاہئے کیا ایسا تو نہیں کہ ہم روزہ کا ثواب کمانے کے بجائے گنواں رہے ہوں بلکہ الٹا گناہ کما رہے ہوں۔qlu