روزہ عبادت کے ساتھ سماجی اصلاح کا موثر ذریعہ

0

محمد مستقیم ندوی

روزہ بہت وسیع مفہوم اور تنوع رکھتا ہے،یہ عبادت کے ساتھ سماج سدھار کا موثر ذریعہ بھی ہے۔رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی بندے مؤمن کے لئے تربیتی کورس اور ذہن سازی کا ٹریننگ کیمپ ہے۔روزہ ایک فلسفہ ہے جس کا ایک سرا براہ راست خالق سے جا ملتا ہے اور یہ اتنا لطیف ہے کہ اس کا ادراک فرشتے بھی نہیں کر سکتے تو دوسری طرف اس کی جڑیں سماج میں اتنی گہرائی میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کو نظر انداز کر نے سے سماج پستی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ان دونوں رشتوں کو مستحکم کئے بغیر معاشرے کی تشکیل کا عمل ممکن نہیں۔انسان کی سرشت ہی قدرت نے کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ برائی کی طرف تیزی سے راغب ہوتی ہے۔اسی وجہ سے معاشرے میں برائی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔اس کو سدھارنے کے لئے نہ تو پولیس اور عدلیہ کی چارہ جوئی کارگر ثابت ہو تی ہے نہ ہی کوئی پینل کوڈ اس پر قابو پا سکتا ہے۔اس کی اصلاح تو وہی ذات کر سکتی ہے جس نے اس کو وجود بخشاکیونکہ وہ بندہ کے مزاج، اس کی فطرت سے پوری واقفیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی اصلاح کے لئے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ بڑا ہی حکیمانہ اور مؤثر ہے اور انسان کو اسے اختیار کر نے پر پورا زور دیا اور بار بار تاکید بھی فرمائی، وہ ہے خوف خداجس کو ہم تقوی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے’’جو شخص تقوی اختیار کر تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر پریشانیوں سے نجات کی شکلیں پیدا کر دیتے ہیں‘‘(الطلاق2-)۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی اصلاح کے لئے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ بڑا ہی حکیمانہ اور مؤثر ہے اور انسان کو اسے اختیار کر نے پر پورا زور دیا اور بار بار تاکید بھی فرمائی، وہ ہے خوف خداجس کو ہم تقوی سے تعبیر کرتے ہیں۔ارشاد ہوتا ہے’’جو شخص تقوی اختیار کر تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر پریشانیوں سے نجات کی شکلیں پیدا کر دیتے ہیں‘‘(الطلاق2-)۔

تقوی اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسے زور زبردستی حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا،یہ تو انسان کی خواہش اور دلی جذبات سے تعلق رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس نازک مسئلے کو روزہ جیسی عظیم عبادت سے جوڑ کر اس کے حصول کو آسان بنا دیاہے۔آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ہدایات اجر وثواب کے وعدے اور وعید نے ایسا اثر ڈالا کہ بندہ جذبہ ایمان واحتساب کے تصور کے بغیر اس عمل کو روح سے خالی عمل سمجھنے لگا۔تقوی جب اپنی پوری حقیقت کے ساتھ دل میں جا گزیں ہو جاتا ہے تو انسان فطری طور سے برائیوں، منکرات اور معاصی سے نفرت کرنے لگتا ہے۔نیکی اور کارخیر کی طرف دلچسپی اور رغبت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کسی بھی منکر کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ایسی صورت میں معاشرے کے اندر برائی کے پھیلنے اور نفرتوں کے بڑھنے کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔اس فصل بہار میں تقوی کی ایک ہلکی سی جھلک سے پورا ماحول ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔نیکیوں کی بیار بہنے لگتی ہے۔ معاشرے میں رونق لوٹ آتی ہے،ذکروتلاوت، تذکیر و تسبیح کے زمزمے کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں۔فضا خوشگوار،ماحول پر سکون ہوجاتا ہے،رحمتوں کا شامیانہ سایہ فگن ہوجاتاہے،ایک نئی زندگی کا احساس ہوتا ہے۔
کتنے ایسے در ہیں جو اس ماہ میں سخاوت کے لئے کھل جاتے ہیں۔ کتنے ایسے گنہگار ہیں جو گناہو ں سے تائب ہو جاتے ہیں۔رمضان کا یہ پورا مہینہ انسانیت، شرافت، اظہار تابعداری و بندگی ،ایثار و ہمدردی کی تربیت کا مہینہ بن جاتا ہے۔یوں توآقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں بے نظیر تھے ۔جب رمضان کا مہینہ آتا آپ کی دادودہش میں اس قدر اضافہ ہوتا کہ ہوا سے بھی زیادہ تیز ہو جاتی۔آپ تو سماج کے ہر طبقہ کے لئے خیر خواہ تھے۔ اس لئے لوگوں کو تلقین فرماتے کہ کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا ے تو اس کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گا۔اس طریقہ سے امیر اور غریب کے درمیان پڑھتی ہوئی دوری اور فاصلے کو کم کر کے باہمی بھائی چارہ کو فروغ دیناکتنا آسان ہو جاتا ہے۔یہ مہینہ صبر اور غمخوار کا مہینہ ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اگر کوئی ناگواری بیش آتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ اس کو جنت دیتا ہے۔کوئی نعمت ملتی ہے اور اس پر شکر ادا کرتا تو بھی اس کو جنت کا وعدہ ہے۔آدمی کہیں بھی ہو کسی بھی سوسائٹی میں ہو اچھے برے ہر طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے۔بسااوقات ذرا سی بات پر اچھے بھلے کام بگڑ جاتے ہیں، معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے۔رشتے ناطے ٹوٹنے کی نوبت آ جاتی ہے، آدمی جذبات پر قابو پالے اور تحمل سے کام لے تو بگڑے کام بن جاتے ہیں، کتنے فتنے فساد رفع ہو جاتے ہیں۔
ایک خاموشی ہزار بلاؤں کو ٹالتی ہے۔آدمی صبر کے ذریعے معاشرے کو وائلینس سے بچا لیتا ہے، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے صاف طور سے کیا ہے۔ارشادہے’’ائے ایمان والو! صبر اورنماز کے ذریعہ اللہ سے مددچاہو‘‘۔ یہ صبر اتنی بڑی نیکی اور کار عظیم ہے کہ اس کے صلہ کے لئے اللہ نے کوئی پیمانہ ہی مقررنہیں کیا ہے بلکہ اس کا اجر بے حساب عطا کرنے کا وعدہ فرمایاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ صبرکرنے والوں کوبغیرحساب کے اجردیتاہے۔حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’ روزہ آدمی کی حفاظت کے لئے ڈھال کا کام دیتا ہے،جب تک اس کو پھاڑ نہ دیا جائے‘‘(رواہ النسائی)۔صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کیسے خراب ہو جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جھوٹ اور غیبت سے۔یہاں بھی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی اصلاح کو پیش نظر رکھا اور دو قلبی بیماریوں کو روزہ کے فساد کا سبب بتا یا۔ایک جھوٹ جو امراض کی ماں ہے۔دوسری غیبت جو فساد کی جڑ ہے۔اس کی بدبوسے انسان کا دل تار تار ہو جاتا ہے اور معاشرے پر خزاں طاری ہو جاتا ہے۔قرآن نے اس شناعت اور خباثت کو ایسے انداز میں بیان کیا ہے کہ اس کو سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔’’تم میں کوئی ایسا شخص ہے اپنے مردہ بھائی کی نعش کو نوچ نوچ کر کھائے اور اس کا خون پئے،اس کو کوئی پسند نہیں کرے گا‘‘(الحجرات12-)۔
کسی کی غیبت کرنا ،چغلخوری کرنا، بہتان تراشی ،عیب جوئی کرنا جو معاشرے کو برباد کر دیتی ہیں، اللہ تعالیٰ کو کسی صورت گوارہ نہیں ہے۔دوسری چیز جو اس ماہ میں کرنے کی ہے وہ ہے استغفار کی کثرت یہ اللہ کو بہت ہی پسند ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے اچھا گنہگار وہ ہے جو سب سے زیادہ رجوع کرنے والا ہے۔آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتا ہوں۔اس تناظر میں جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو قدم قدم پر خطائیں ہوتی نظرآتی ہیں۔آدمی اپنی انا کو چھوڑ کر اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے اپنے بھائی سے معافی تلافی کرلے تو اپنے آپ کو اور سماج کو نفرتوں کے دلدل سے نکال سکتا ہے۔ سانپ بھی مر جائے ،لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔یہ مبارک مہینہ رخصت ہوتے ہوتے پھر ہمیں اپنے نادار بھائیوں کو گلے لگا نے کی ہدایت دیتاہے۔یعنی پورے مسلم معاشرے پر صدقہ ٔ فطر کو واجب قرار دیتا ہے۔پورے ماہ محنت مشقت سے رکھے گئے روزے اسی وقت شرف قبولیت حاصل کر سکتے ہیںجب تمہارا صدقہ تمہارے بھائی کے در تک پہنچ جائے تاکہ کسی غریب کے ٹوٹے دل اور اس کی تمنائیں اس خوشی کے موقع پر دل ہی دل میں دفن نہ ہو جائیں۔معصوم کی حسرتیں اس فصل بہار میں بھی آنسوؤں کی شکل میں رخسار پر ہی خشک نہ ہو جائیں۔جب یہ مبارک ماہ اپنی مدت پوری کر لیتا ہے تو ہلال بڑی آب و تاب کے ساتھ نورانی کرنیں دھرتی پر بکھیرتا ہے تو اس کی ہر کرنوں کے ساتھ فرشتے بھی ہمرکاب ہوتے ہیں اور ہر گلی کوچے میں اس نئے فرشتے کے لئے استقبال میں پلکیں بچھا دیتے ہیں،ہاتھ دعاؤں کے لئے اٹھا دیتے ہیں۔اب تو ساری خلقت وسیع میدان ہے، رب ذوالجلال کے حضور میں سجدۂ تشکر کے لئے دست بستہ کھڑی ہے۔یہ منظر دیکھ خالق کی رحمت وجد میں آجاتی ہے فرشتوں کو آواز دیتی ہے دیکھو میرے بندوں کو۔حق تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرتے ہیںکیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو۔وہ عرض کرتے ہیں اے ہمارے معبود اور مالک اس کا صلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اے فرشتو گواہ رہو میں نے اسے مغفرت کا پروانہ دیدیا۔ائے میرے بندو میری عزت اور جلال کی قسم آج کے دن آخرت کے بارے میں سوال کرو گے، عطا کروں گا۔دنیا کے بارے میں سوال کرو، مصلحت پر نظر کرتے ہوئے اسے بھی دوں گا۔بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔qlu

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS