روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے

0

محمد قمرالزماں ندوی

روزہ اسلام کا ایک عظیم الشان رکن اور مہتم بالشان عبادت ہے۔ اس کی فرضیت کا ثبوت قرآن مجید اوراحادیث نبویہ میں موجود ہے۔روزہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یہ اسلام کی طرح دوسرے ادیان و مذاہب کا بھی لازمی جز رہا ہے حتی کہ ان اقوام میں بھی جن کا اہل کتاب ہونا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے ، ان کے یہاں بھی روزہ کسی نہ کسی شکل اور صورت میں پایا جاتا ہے۔مذہب اسلام نے دیگر عبادات کی طرح روزے کو بھی نہایت مکمل اور جامع صورت دی ہے اور اس کے مسائل و احکام ، فضائل و مناقب اور دیگر تفصیلات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے نیز روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے جو وعیدیں ہیں اس کا بھی تذکرہ کر دیا گیا ہے۔
روزہ اپنے خالق و معبود سے عشق و محبت اور تعلق کا مظہر ہے۔ روزہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہے کہ خدا کی خوشنودی کی طلب میں بھوک ہے پیاس ہے علائق دنیا سے بے تعلقی ہے، لذت کام و دہن سے بے نیازی ہے اور ایک ہی آرزو اور تمنا ہے کی اس کا رب اس سے خوش اور راضی ہوجائے۔ کھانے پینے کی تمام چیزیں دستیاب اور مہیا ہیں لیکن ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں جاسکتا، پانی کی کمی نہیں اور پیاس نے حلق کو خشک کر رکھا ہے لیکن کیا مجال کوئی گھونٹ حلق کو تر کردے۔ یہ سب کچھ وہ اپنے رب کے حکم اور ڈر سے کرتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے ذمہ لیا ہے کہ بندہ اپنی خواہشات کو میرے لیے قربان کر دیتا ہے اور مشقت کو برداشت کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا یا یہ کہ میں خود اس کی جزا ہوں۔

روزہ اپنے خالق و معبود سے عشق و محبت اور تعلق کا مظہر ہے۔ روزہ میں اللہ
تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہے کہ خدا کی خوشنودی کی طلب میں بھوک ہے
پیاس ہے علائق دنیا سے بے تعلقی ہے، لذت کام و دہن سے بے نیازی ہے اور ایک
ہی آرزو اور تمنا ہے کی اس کا رب اس سے خوش اور راضی ہوجائے۔ کھانے پینے
کی تمام چیزیں دستیاب اور مہیا ہیں لیکن ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں
جاسکتا، پانی کی کمی نہیں اور پیاس نے حلق کو خشک کر رکھا ہے لیکن کیا
مجال کوئی گھونٹ حلق کو تر کردے۔ یہ سب کچھ وہ اپنے رب کے حکم اور ڈر
سے کرتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے ذمہ لیا ہے۔

کتب احادیث میں روزہ کی فضیلت و اہمیت کے سلسلہ میں اور بھی متعدد احادیث موجود ہیں ان میں سے ایک مشہور حدیث جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’روزہ آدمی کے لئے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے‘‘ (نسائی و ابن ماجہ)۔ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال کے ذریعے سے دشمنوں کے وار سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ روزہ حفاظت ہے اللہ کے عذاب سے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ روزہ جہنم سے حفاظت ہے۔ ایک جگہ یہ وارد ہوا ہے کہ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جھوٹ اور غیبت سے (فضائل رمضان)۔
مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے دکن حیدر آباد کے مشہور عالم دین محدث مولانا ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ فرماتے ہیں’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک موقع پر ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت فرمایا کہ تم مفلس کس کو کہتے ہو ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن نیک اعمال لے کر حاضر ہوگا تو کئی دعوے شروع ہوں گے اور تمام نیک اعمال دعویداروں کو دے دئے جائیں گے۔ جب تمام نیک اعمال ختم ہو جائیں گے، ابھی دعوے باقی ہوں گے ،تب مدعی کہیں گے اس کے پاس روزے ہیں اور ہمارے حقوق میں وہ روزے دے دئے جائیں۔ (تو اس وقت) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : الصوم لی ( روزہ میرے لئے ہے) یہ تم کو نہیں دیا جائے گا۔ مدعی کہیں گے پھر ہمارے گناہ اس پر ڈال دو۔ حقوق کے بدلے بے روزہ داروں پر جب گناہ ڈالے جائیں گے تو وہ گناہ ان پر ہوں گے۔ اور وہ دوزخ میں ڈال دئے جائیں گے۔اس کے برخلاف روزہ داروں پر جب گناہ ڈالے جائیں گے تو مدعیوں سے تو نکل جائیں گے مگر روزہ داروں پر نہیں گریں گے کیونکہ الصوم جنۃ (روزہ ڈھال ہے) وارد ہوا ہے ،روزہ کے طفیل میں روزہ دار بھی بچے گا اور دوسروں کے گناہ بھی نہیں پڑیں گے مگر تمہاری اور نیکیاں چلی جائیں گی‘‘ ( مواعظ حسنہ از محدث دکن) ۔
لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ وہ روزہ جو اس دنیا میں اور حشر کے میدان میں بھی ہمارے لئے گناہوں اور شیطان کے مقابلے میں ڈھال بنے گا وہ واقعتا روزہ ہونا چاہئے، صرف صبح سے لے کر شام تک بھوکا پیاسا اور بعض خواہشات سے رک جانا کافی نہیں ہے کیونکہ یہ تو محض روزہ کی شکل و صورت ہے۔ بلکہ اس کے لئے شرط ہے کہ روزہ روح اور حقیقت کے ساتھ ہو وہ روزہ یہ ہے کہ زبان برائیوں سے رک جائے، کان غیبت سے باز آجائیں، آنکھ ناجائز چیزوں کو نہ دیکھے، ہاتھ ظلم و زیادتی سے رک جائیں، پاوں حرام کی طرف چلنے سے انکار کریں اور ان سب کے بادشاہ دل و دماغ خلاف شرع باتوں کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت سے محروم ہو جائیں۔ ورنہ بے روح اور بے حقیقت روزہ رکھنے والوں کے بارے میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا ،اور بہت سے قیام لیل کرنے والے (یعنی تہجد و تراویح پڑھنے والے) وہ ہیں جن کو اپنے قیام لیل سے جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا‘‘( سنن دارمی / کتاب الصوم)۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے رسمی روزے کو حقیقی اور روحانی روزے میں بدل دے جو روزہ ہمارے لئے یہاں اور وہاں دونوں جگہ ڈھال بن جائے ،آمین۔ rlm

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS