مولانا ندیم الواجدی
روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو(۹) رمضانوں کے مکمل روزے رکھے ہیں، اس ماہ مبارک کے علاوہ بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے ( مسند اسحق ابن راہویہ:4؍77) ام المؤمنین حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر کثرت سے (نفلی) روزے رکھا کرتے کہ ہم لوگ کہتے اب روزے ہی رکھا کریںگے اور کبھی کئی کئی دنوں تک روزے نہ رکھتے تب ہم لوگ کہتے کہ آپ اب روزہ نہیں رکھیںگے، آپ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد رمضان کے علاوہ کسی ماہ کا مکمل روزہ نہیں رکھا (صحیح البخاری: 2؍695، رقم الحدیث: 1968)۔
رمضان شروع ہونے سے پہلے اس ماہ مبارک کی آمد کی خوش خبری سناتے اور صحابۂ کرامؓ سے ارشاد فرماتے کہ تمہارے پاس ایک مبارک مہینہ آرہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے فرض کئے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں، شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کے خیرسے محروم ہواوہ ہر خیر سے محروم ہوا۔ ( علل دار قطنی:10؍ 75) ۔رمضان کی آمد سے پہلے آپ خودبھی یہ دُعا فرماتے اور صحابہ کو بھی یہ دعا پڑھنے کے لیے فرماتے ’’ اے اللہ! مجھے رمضان سے اور رمضان کو مجھ سے سلامتی عطا فرما اور اس مہینے کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبول فرما‘‘( کنز العمال: 8؍584)۔ شعبان کی انتیس اور تیس تاریخ کو آپ ؐچاند دیکھنے کا اہتمام فرماتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ شعبان کا چاند دیکھنے کا جتنا اہتمام فرماتے اتنا دوسرے ماہ کے چاند کا نہ فرماتے ( سنن ابی داؤد:318، سنن دارقطنی:2؍157) ۔حکم فرماتے کہ شعبان کی تاریخوں کو یاد رکھا کرو ( سنن دار قطنی:2؍ 163) ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو تاریخ کا معیار مقرر فرمایا۔ارشاد مبارک ہے کہ جب تم چاند دیکھوتو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر عید کرو اورچاند نظر نہ آئے تو دن گنو ( یعنی تیس دن پورے کرو) اور جان لو کہ مہینہ تیس دن سے زیادہ کا نہیں ہوتا ( بخاری ، ص:56، مصنف بن عبدالرزاق :4؍ 156)۔
رمضان کے دنوں میں آپ کی سخاوت بڑھ جاتی ، رمضان میں آپ اس طرح تیزی کے ساتھ سخاوت فرماتے جیسے تیز ہوائیں چل رہی ہوں۔عبادت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کا معمول بھی بدل جاتا، عام دنوں میں تو آپ سحری کے وقت سوجاتے لیکن رمضان کے دنوں میں آپ سحری کے وقت تک بیدار رہتے اور عبادت میں مشغول رہتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے شروع میں بہت کم سویا کرتے تھے اور آخری عشرے میں تو آپ سونا بالکل ہی بند کردیتے ، اور گھر کا بستر اٹھ جاتا یعنی اہل خانہ سے علیحدہ ہوجاتے، اور ہمہ تن عبادت میں مشغول ہوجاتے ( مسند احمد بن حنبل: 6؍ 146)۔
رمضان میں آپ کثرت سے عبادت فرمایا کرتے تھے۔ رمضان آتا تو آپ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور کرتے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہر سال جبرئیل علیہ السلام ایک مرتبہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پیش فرماتے ، جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات فرمائی اس سال دو مرتبہ پیش فرمایا ( صحیح البخاری:1؍7، رقم:5)۔ رمضان کے دنوں میں آپ کی سخاوت بڑھ جاتی ، رمضان میں آپ اس طرح تیزی کے ساتھ سخاوت فرماتے جیسے تیز ہوائیں چل رہی ہوں۔عبادت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کا معمول بھی بدل جاتا، عام دنوں میں تو آپ سحری کے وقت سوجاتے لیکن رمضان کے دنوں میں آپ سحری کے وقت تک بیدار رہتے اور عبادت میں مشغول رہتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے شروع میں بہت کم سویا کرتے تھے اور آخری عشرے میں تو آپ سونا بالکل ہی بند کردیتے ، اور گھر کا بستر اٹھ جاتا یعنی اہل خانہ سے علیحدہ ہوجاتے، اور ہمہ تن عبادت میں مشغول ہوجاتے ( مسند احمد بن حنبل: 6؍ 146)۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگ کر عبادت میں مشغول رہتے، اور گھر والوں کو بھی جگاتے ( مسلم، ص:372، ابو داؤد،ص: 334، نسائی: ص164) ۔آخری عشرے کے متعلق روایات میں ایک جملہ آیا ہے شد لمئزر جس کا ترجمہ ہے آپ ازار بند مضبوطی کے ساتھ باندھ لیتے، اُردو میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے یہ جملہ بوالا جاتا ہے ، کمر کس لینا، گویا آپ آخری عشرہ شروع ہوتے ہی سخت جد جہد کے لیے کمر کس لیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحری کھاکرروزہ رکھتے، حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ سحری تناول فرمارہے تھے، مجھے دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا سحری برکت ہے، اللہ نے تمہیں سحری سے نوازا ہے اسے مت چھوڑنا ( مسند احمد ، نسائی)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب پڑھنے سے قبل افطار کیا کرتے تھے، اگر تر کھجوریں مل جاتیں تو ان سے افطار فرماتے، تر نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرمالیتے، یہ بھی نہ ملتیں تو پانی سے افطار فرمالیا کرتے تھے، افطار کے وقت آپ یہ دُعا پڑھتے : اللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وعلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم کبھی اس دُعا میں اختصار بھی فرماتے اور کبھی کبھی یہ دُعا بھی فرماتے: ذَہَبَ الطَّمَأُ وَاَثْبَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہ حضرت ابو ہریرہ ؓنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دُعا رد نہیں ہوتی(مسند ابن راہویہ: 1؍317)۔
uuu