کسان تحریک کے مقام سے واپس لوٹنے کے لئے تیار

0

نئی دہلی: یو این آئی) مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف ایک سال سے زیادہ عرصے سے احتجاج کر رہے کسان تحریک کے مقام سے واپس لوٹنے کے لئے تیار ہیں۔ کسانوں کے لوٹنے کے ساتھ ہی اس احتجاجی مظاہرے کا اختتام ہوجائے گا۔ کسانوں نے اپنے گھروں کو لوٹنے سے پہلے سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحدوں پر فتح مارچ کیا۔ کسانوں کولوٹنے سے پہلے اپنے خیمے توڑتے، علاقے کی صفائی کرتے اور واپسی سے قبل جذباتی الوداع کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ دریں اثنا، کسان رہنما راکیش ٹکیت نے غازی پور سرحد پر کہا کہ اس عمل میں مزید کچھ دن لگیں گے اور وہ خود 15 دسمبر کو واپس آئیں گے۔ کسانوں کے جانے کے بعد بیڑیکیڈ ہٹادئے جائیں گے اور سڑکوں کو ٹریفک کے لیے صاف کر دیا جائے گا۔ کم از کم سہارا قیمت (ایم ایس پی) کے معاملے پر سرکاری افسران، ماہرین زراعت اور ایس کے ایم کے نمائندوں کوشامل کرکے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے وزیراعظم نریندرمودی حکومت کے اعلان کے بعد آٹھ دسمبر کو سنیکت کسان مورچہ کے بینر تلے کسان گروپس نے اپنی تحریک ختم کردی تھی۔
حکومت نے پرالی جلانے کی شکایات سمیت تحریک کے دوران دائرکی گئی تمام کسانوں کے خلاف شکایتوں کو واپس لینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ تحریک کے دوران مرنے والے کسانوں کے معاوضے کے بارے میں، مرکزی حکومت نے کہا کہ اتر پردیش اور ہریانہ حکومتوں نے اس مطالبے کو اصولی طور پر منظوری دے دی ہے، جبکہ پنجاب پہلے ہی اس کا اعلان کر چکا ہے۔ وزیر زراعت نریندر تومر نے جمعہ کو راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہا کہ معاوضہ کا معاملہ ریاست کا معاملہ ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں پارلیمنٹ سے بل کی منظوری کے فوراً بعد پنجاب میں تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد 26 نومبر کو کسانوں نے ‘دلی چلو’ (دہلی مارچ) کی اپیل کی۔ اس کے بعد جب کسانوں کو دہلی میں داخل نہیں ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تب وہ شہر کی سرحدوں پر دھرنا پربیٹھ گئے۔ کسانوں کا دھرنا ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 نومبر کو اچانک اعلان کیا کہ تین نئے زرعی قوانین کو واپس لیا جائے گا۔ اس کے بعد سرمائی اجلاس کے پہلے دن 29 نومبر کو پارلیمنٹ نے ان تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کر دیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS