محمد حنیف خان
کسی بھی ملک/ریاست کا تصور عوام اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ملک کے لیے عوام ضروری ہیں اور ریاست کے لیے نظام ضروری ہے۔یہ دونوں متمدن معاشرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں،کسی ایک کے عدم وجود سے دوسرے کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے۔ہندوستان ایک متمدن معاشرے کا حامل ملک ہے البتہ اس کے تمدن،تہذیب اور ثقافت میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے زیادہ تنوع پایا جاتا ہے، اس کا تنوع ہی اس کو خوبصورت،خوشنما اور کثیرجہتی بناتا ہے۔ایک ہی ملک میں تہذیب و تمدن،زبان و مکان/علاقہ کے اختلاف کے باوجود دو قدریں مشترک ہیں۔جن میں سے ایک کا تعلق عوام سے ہے اور دوسرے کا ریاست سے ہے۔پورے ملک میں ایک نظام نافذ ہے (فروعی /اضافی حقوق کو چھوڑکر)جو پورے ملک کو ایک دھاگے میں پروتا ہے جس سے ایک ریاست کا تصور پیدا ہوتا ہے جبکہ کشمیر سے کنیا کماری تک زراعت ہوتی ہے، ہر طرح کے اختلافات کے باوجود ہر رنگ و نسل اور زبان کے لوگ کھیتی کسانی کرتے ہیں،جس کی بنیاد پر ہندوستان کو زراعت پر مبنی ملک قرار دیا جاتا ہے۔
ہندوستان کے زرعی تمدن کی ایک طویل تاریخ ہے، اساطیری اہمیت کے حامل دور سے لے کر تاریخی دور تک میں ہندستان کی معاشیات کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہی رہی ہے۔کوٹلیہ نے زرعی اصلاحات وسیع پیمانے پر نافذ کی تھیں،جس سے ملک میںخوشحالی کا نیا دور آیاتھا۔اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً اس شعبے کی ترقی کے لیے ریاستوں نے سنجیدگی سے کام کیا۔شہنشاہ اکبر نے زمینوں کی پیمائش کرائی،زرعی و غیر زرعی زمینوں کو الگ کیا۔اس طرح زرعی اصلاحات کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔جس پر کم از کم حکومت کو ضرور نظر ڈالنا چاہیے تاکہ اس کو یہ معلوم ہو سکے کہ جو بھی اصلاحات قدیم دور سے جدید دور تک ہوئی ہیں، ان کا مقصد کیا تھا اور ان کے نفاذ کے بعد ان کے اثرات کس طرح معاشرے پر پڑے۔لیکن یہ بات ذہن نشیں رہے کہ آزادی سے قبل جتنی بھی اصلاحات ہوئیں ان کا تعلق شاہی دور سے رہا ہے،جس میں فرد کی حیثیت کچھ نہیں تھی بس حکم حاکم ہی اصل الاصول تھالیکن اس وقت ملک میں ایک جمہوری نظام ہے،جس کی بنیاد ہی عوام اور آئین ہے۔اس لیے آج کے دور میں جن بھی اصلاحات کا نفاذ ہوگا، ان کو ان دونوں سے قبولیت کا سرٹیفکیٹ ہر حال میں لینا ہوگا۔اگر کوئی قانون ایسا بنا دیا جائے جو آئین کی رو سے تو درست ہو لیکن عوامی مزاج کے خلاف ہو تو ایک جمہوری حکومت سے یہ بہر حال توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس قانون کو مسترد کر کے اس کی جگہ عوامی مزاج کے مطابق قانون وضع کرے۔ ایسی صورت میں عوام قانون سے بھی بالاتر ہوجاتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے زرعی اصلاحات کے نام پر جو تین قانون پارلیمنٹ سے منظور کیے ہیں وہ قانونی /آئینی اعتبار سے تو درست ہو سکتے ہیں،ان کو اس سطح پر سپریم کورٹ میں چیلنج دینا بھی ناممکن ہو سکتا ہے لیکن چونکہ وہ عوامی مزاج کے خلاف ہیں، اس لیے ان کے نفاذ میں حکومت کو پسینے چھوٹ گئے،اس کے باوجود حکومت قدم پیچھے کھینچنے کو تیار نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر ایسا ان قوانین میں کیا ہے جن کی بنا پر حکومت /ریاست اپنے قدم پیچھے نہیں کھینچ رہی ہے۔وہ نفاذ سے کچھ دیر رکنے کے لیے تیار ہے،وہ ان میں جزوی ترمیم کے لیے بھی راضی ہے لیکن کلی طور پر ان کو مسترد کرنے کے لیے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے۔
جب حکومت عوامی /جمہوری ہے تو ریاست کو جمہور کی رائے اور ان کے مزاج کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے مگر حکومت ایسا نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ قوانین پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہیں۔پارلیمنٹ یقینا قانون سازی کا ادارہ ہے لیکن یہ تو حکومت بھی جانتی ہے کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں،چونکہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں میں اکثریت اب بی جے پی کی ہی ہے، ایسے میں وہ اس وقت جو قانون چاہے منظور کر سکتی ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا ہے،اگر اس کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اخلاقی قدریں ہیں،ایسے میں حکمرانوں، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کا یہ کہنا کہ وہ قوانین پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہیں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے۔جس طرح سے کسانوں کے مزاج کے خلاف قوانین وضع کیے گئے ہیں، اسی طرح سے ان کو منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب حکمراں طبقہ اس کو انا کا مسئلہ نہ بنائے اور وہ جمہوریت کی روح کو اس کے حقیقی معنوں میں سمجھے۔
حکومت نے خاموشی میں پناہ کیوں لی ہے؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔جس کے جواب تو کئی ہوسکتے ہیں، مسکت جواب یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت نے اپنی پوری کوشش کرلی ہے جب عوام اس کی بات مان ہی نہیں رہے ہیں تو وہ کیا کرے؟یہ جواب درست بھی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت میں اس سوال کا یہ جواب نہیں ہے۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حکومت کی خاموشی بھی اس کی چالوں میں سے ایک چال ہے۔جمہوری حکومت /ریاست کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ تحریکات کو کچلنے کا کام کرے،مگر جمہوری حکومتیں بھی ایسا کرتی ہیں جس کا منظر ہر آنکھ نے دیکھا ہے۔ تحریکوں کو حکومتیں دو طرح سے کچلتی اور مسلتی ہیں۔جب تحریک چلانے والوں سے حکمراں طبقے کا مفاد وابستہ نہیں ہوتا ہے،ان سے کسی طرح کی ہمدردی نہیں ہوتی ہے تو وہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہونے والی تحریک کی طرح ان کو کچل کر رکھ دیتی ہیں جیسا کہ اتر پردیش میںہوا۔لیکن جب حکومتوں کا مفاد وابستہ ہو تا ہے تو وہ اس کے لیے دو راستے اختیار کرتی ہیں اول وہ قانونی داؤں پیچ کا سہارا لیتی ہیں، تحریک چلانے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرتی ہیں، ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا راستہ بدل دیں اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیں،یا پھر پوری طرح سے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں تاکہ تحریکیں اپنی موت خود مر جائیں۔
مرکزی حکومت نے کسانوں کے معاملے میں آخری دونوںحربے اختیار کیے ہیں چونکہ ووٹ کا معاملہ ہے اس لیے وہ اس تحریک کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک کی طرح نہیں کچل سکتی ہے،اس لیے اس نے اول خاموشی اختیار کی،دوم اس نے اپنی ایجنسیوں کو ایسے افراد کے خلاف لگادیا جنہوں نے کسی بھی طرح سے تحریک میں تعاون کیا۔حالانکہ عدالت میں سرکاری وکیل کو ججوں کی ناراضگی اور ترش سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے (جیسا کہ ٹول کٹ معاملے میں دشا روی کے خلاف پٹیالہ ہاؤس کی عدالت نے پولیس سے نہایت سخت لہجے میں گفتگو کی اور ایسے سوالات کیے جن کا جواب سرکاری وکیل نہیں دے سکے)کیونکہ جن دفعات کے تحت ایسے افرادکو گرفتار کیا گیا ہے خود ججوں کو لگتا ہے کہ اس طرح کی گرفتاری غلط ہے مگر چونکہ وکیلوں کو سرکار موٹی رقم ادا کرتی ہے، اس لیے بہر حال ان کو عدالت کے سامنے حکومت کا موقف رکھنا ہے۔
حکومت کی کارروائیوں اور خاموشی کے باوجود اگر کسان اپنی بساط بھر حکومت کے خلاف اب تحریک چلا رہے ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ کسان ان قوانین سے خوف زدہ ہیں،ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس سے اس شعبے میں پرائیویٹائزیشن کو فروغ ملے گا جس سے کسان مزید پریشانیوں سے دوچار ہوگا،سرمایہ کار اس کو کچل کر مسل کر رکھ دیں گے۔حکومت دلیل دیتی ہے کہ کسان جہاں چاہے اپنی پیداوار فروخت کرسکتا ہے۔اسی طرح ایم ایس پی تھی،ہے اور رہے گی۔ان دونوں جملوں کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے،جو کسان اپنی منڈیوں میں صحیح دام نہیں پاتا ہے وہ کہاں لے کر جائے گا؟یہ خواب دکھانے سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ جہاںفروخت کر سکتا ہے،وہ کہیں بھی فروخت کرے گا فائدہ اس کے بجائے سرمایہ کار کو ہی ہونا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ کہیں بھی فروخت کرنے کی استطاعت سرمایہ کاروں میں ہوتی ہے کسانوں میں نہیں کیونکہ وہ حمل و نقل کے اخراجات برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں یہی حال ایم ایس پی کا ہے۔اس لیے حکومت کو خاموشی،قانونی کارروائی اور انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ایک منتخب /جمہوری حکومت کا کردار ادا کرتے ہوئے عوامی مزاج کے مطابق نیا قانون وضع کرنا چاہیے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو اس کی قیمت نہ صرف حکمراں پارٹی کو ادا کرنی پڑے گی،اس تحریک کے بے نتیجہ رہ جانے پر عوام کو بھی آئندہ بہت کچھ دیکھنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اس تحریک کی موت کے بعد حکومت کا راستہ جمہوریت کے بجائے آمریت کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
[email protected]