کسانوں کی مہا پنچایت

0

زرعی اصلاحات کے قوانین کے خلاف گزشتہ کئی مہینوں سے کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ حکمراں جماعت کے لیڈروں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ہریانہ، پنجاب اور مغربی اترپردیش کے کسان ہی احتجاج کر رہے ہیں، ملک بھر کے کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف نہیں ہیں۔ اسی ایشو پر شرومنی اکالی دل نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑا۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے یہ اشارہ نہیں دیا تھا کہ وہ یہ قوانین واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اترپردیش، پنجاب اور اتراکھنڈ سمیت 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے دو مہینے پہلے وزیراعظم نریندر مودی نے زرعی اصلاحات کے تینوں قوانین کی منسوخی کا اعلان کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ خود بی جے پی لیڈروں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وزیراعظم زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان کردیں گے۔ بی جے پی کی سینئر لیڈر اور مدھیہ پردیش کی سابق وزیراعلیٰ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ ’مورخہ 19 نومبر، 2021 کو ہمارے وزیراعظم عزت مآب مودی جی نے جب تینوں زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا تو میں حیران رہ گئی، اس لیے تین دن بعد ردعمل دے رہی ہوں۔‘ مگر سیاست میں جتنی اہمیت کسی فیصلے کی ہوتی ہے اتنی ہی اہمیت اس وقت کی بھی ہوتی ہے جب فیصلہ لیا جارہا ہوتا ہے۔ اس بات کی بھی ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ لیا کب گیا۔ شروع میں ایسا لگا تھا کہ کسان آندولن کا انجام بھی سی اے اے مظاہروں کے اختتام جیسا ہوگا مگر یہ طویل کھنچ گیا، اس لیے کیا یہ سمجھا جائے کہ زرعی قوانین یعنی فارمرس پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسی لیٹیشن) ایکٹ، 2020، فارمرس(اِمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) ایگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسزایکٹ، 2020 اور اِسینشیل کموڈیٹیز(ایمنڈمنٹ) ایکٹ، 2020 جب پاس کیا گیا تھا تو اس وقت حالات الگ تھے مگر اب اسمبلی انتخابات کے مدنظر ہی اس کی منسوخی کا فیصلہ لیا گیا ہے، کیونکہ 700 سے زیادہ کسانوں کی اموات کے باوجود سرکار زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے تیار نہیں تھی، حکمراں جماعت کے وزرا اور لیڈران ان قوانین کو کسانوں کے لیے فائدہ مند بتا رہے تھے تو آخر اچانک ایسی کیا بات ہوگئی کہ وزیراعظم کو زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان کرنا پڑا؟ لکھنؤ میں سنیکت کسان مورچہ کی آج کی مہاپنچایت میں راکیش ٹکیت نے یہ بات کہی ہے کہ کسان آندولن جاری رکھیں گے۔ مسئلے کئی ہیں، مثلاً: سیڈ بل، ایم ایس پی گارنٹی، دودھ پالیسی، بجلی بل، ان سبھی کا حل نکلنے تک کسانوں کا آندولن ختم نہیں ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، ’راکیش ٹکیت نے کہا کہ جس وقت نریندرمودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تب انہوں نے ایک رپورٹ بھارت سرکار کو بھیجی تھی جس میں ایم ایس پی پر گارنٹی قانون بنانے کی سفارش کی تھی۔ آخر اب اسے کیوں نافذ نہیں کیا جا رہا ہے؟‘ حکومت کو ایم ایس پی پر اپنی بات کسانوں کے سامنے رکھنی چاہیے تاکہ کسان بھی حکومت کے سامنے اپنی حتمی بات رکھ سکیں۔
راکیش ٹکیت نے وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر ٹینی پر سخت موقف کا اظہار کیا ہے، اس سے یہ لگتا ہے کہ کسانوں کے لیے اجے مشر ٹینی بھی ایک ایشو بن چکے ہیں۔ فی الوقت ایسا نظر نہیں آ رہا ہے کہ زرعی قوانین منسوخ کر دینے سے کسان احتجاج ختم کر دیں گے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کسان اپنے سبھی مسئلوں کا حل حکومت سے چاہتے ہیں۔ کسانوں کے آندولن کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے کئی تنظیمیں سی اے اے کے خلاف پھر سے احتجاج کی تیاری کر رہی ہیں۔ ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق، آسام میں 12 دسمبر کو سی اے اے مخالف احتجاج کا منصوبہ ہے اور اس میں آل اَسم اسٹوڈنٹس یونین، کرشک مکتی سنگرام سمیتی اور اَسم جاتیہ پریشد کے بھی شامل ہونے کا امکان ہے۔ یعنی کسان آندولن کے بالواسطہ اثرات پڑنے لگے ہیں، البتہ ان اثرات کو دیکھنے کا اپنا اپنا نظریہ ہے۔ خاص طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگست-ستمبر، 2013 میں ہوئے مظفرنگر فسادات نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین دوری سی بنا دی تھی مگر یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ سنیکت کسان مورچہ کی مظفرنگر مہاپنچایت نے یہ دوری بڑی حد تک ختم کر دی ہے، لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ برسوں سے ساتھ رہے ہیں تو آگے بھی انہیں مل جل کر ہی رہنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے۔ ایسی صورت میں ان پارٹیوں کے لیے کامیابی کا حصول آسان نہیں ہوگا جو دو فرقوں کی تقسیم کو اپنی جیت کی ضمانت کی طرح دیکھتی رہی ہیں۔
فی الوقت کسان آندولن کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنی مشکل ہے، یو پی اسمبلی انتخابات کے بعد ہی یہ پتہ چل پائے گا کہ انتخابی نتائج پر کسان آندولن کا کتنا اثر پڑا ہے اور یہ آندولن کسانوں کے سبھی مسئلوں کا حل نکال کر ہی ختم ہوگا یا اس کا اختتام بھی انا ہزارے کے آندولن جیسا ہوگا؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS