نئی دہلی ،(یو این آئی):سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک بار پھر مرکزی حکومت پر واضح کیا کہ کسانوں کو احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن اس کی وجہ سے سڑکیں غیر معینہ مدت کے لیے بند نہیں کی جا سکتی ہیں۔
جسٹس ایس کے کول اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے ایک بار پھر مظاہرین کو سڑکوں سے ہٹانے کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ تبصرہ کیا ۔
دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کسانوں کی تنظیموں سے کہا کہ وہ چار ہفتوں میں اپنا جواب داخل کریں۔ معاملے کی اگلی سماعت 7 دسمبر کو ہوگی۔
نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والی سنیکت کسان مورچہ اور دیگر کسان تنظیموں پر سڑکوں کو بند کرنے کا الزام عائد کرنے والی عرضی پر عدالت عظمیٰ سماعت کر رہی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے مظاہرین کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی اس عرضی کی شنوائی کے دوران کہا کہ ہمیں سڑک جام سے پریشانی ہے۔ اس طرح کا دھرنا مظاہرہ کرکے سڑکوں کو غیرمعینہ مدت کے لیے بند نہیں کیا جا سکتا۔
سماعت کے دوران ، سپریم کورٹ نے سنیکت کسان مورچہ اور کسان تنظیموں سے پوچھا کہ کیا انھیں سڑکیں بند کرنے کا حق ہے؟ اس پر کسان تنظیموں کے نمائندوں نے کہا کہ پولیس، ٹریفک مینجمنٹ کا کام اچھے طریقے سے کر سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہے تو ہمیں دہلی کے جنتر منتر یا رام لیلا میدان میں دھرنا دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
حکومت کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے احتجاج کے دوران خوب تشدد ہوا۔ احتجاج سے پہلے کسانوں کی تنظیموں نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ احتجاج کے دوران کوئی تشدد نہیں ہوگا لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔
غور طلب ہے کہ سنیکت کسان مورچہ 40 سے زائد کسان تنظیموں کا ایک محاذ ہے۔ اس محاذ کے تحت کسان کئی مہینوں سے دارالحکومت دہلی کی سرحدوں سمیت ملک کے کئی حصوں میں مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
پچھلے سال نومبر میں پنجاب اور ہریانہ سے شروع ہونے والی یہ تحریک مسلسل جاری ہے۔