نئی دہلی (پی ٹی آئی)
اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ماہرقانون اورحیدرآباد کی نلسار لایونیورسٹی کے وائس چانسلر اورکنسورٹم آف نیشنل لا یونیورسٹیز کے صدر پروفیسر فیضان
مصطفی کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ میں تضاد ہے اورمستقبل میں اس سے پریشانی کا اندیشہ ہے۔عدالت نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنازع کو
ختم کرنے کےلئے زمین ہندوفریقوں کو دے دی ،ساتھ میں اس دلیل کو بھی خارج کردیا کہ مغل بادشاہ بابر نے رام مندر توڑ کر مسجد بنائی تھی، جو مسلمانوں کےلئے
بڑی جیت ہے۔اس سوال پر کہ اجودھیا پر آئے فیصلہ کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ پروفیسر مصطفی نے کہا کہ ’عدالت نے عملی سچائی کو سامنے رکھا ، اگر
تنازع کا فیصلہ سنی وقف بورڈ کے حق میں بھی سنادیا جاتا تو بھی وہاں مسجد بنانا تقریباً ناممکن تھا اوریہ تنازع چلتا رہتا۔اس مسئلہ کو حل کرتے ہوئے عدالت نے آستھا کو
اہمیت دیتے ہوئے متنازع مقام ٹرسٹ کو دے دیا، جہاں مندر بنایا جائے گا۔میں امید کرتا ہوں کہ یہ جھگڑا اب ختم ہوجائے گا۔ فیصلہ حقائق پر منحصر نہیں، بلکہ آستھا کی
بنیاد پر سنائے جانے سے متعلق کچھ فریقوں کے ردعمل پر پروفیسر مصطفی نے پی ٹی آئی سے خاص بات چیت میں کہا ’ پہلے عدالت نے کہا تھا کہ آستھا کے نام
ہم زمین کے تنازع کو حل نہیں کرسکتے ہیں اورپھر عدالت نے آستھا کے نام پر ہی زمین کو ہندو فریقوں کو دے دی۔ عدالت کے فیصلہ کی پہلی لائن میں ہی فریقوں کو
دوفرقہ تسلیم کرلیا گیا۔ اسے ہندو-مسلم نظریہ سے دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ یہ اجودھیا کے ہندوﺅں اورمسلمانوں کے درمیان مقامی زمین کا تنازع تھا ، اس پر سیاست ہوئی
اوراسے بعد میں قومی ایشو بنادیا گیا‘۔ فیصلے کی خامیوں پر پروفیسر مصطفی نے کہاکہ عدالت نے ایک فریق پر ثبوتوں کا بوجھ بہت زیادہ رکھ دیا اورکہا کہ
1528 سے 1857 تک یہ ثابت کیجئے کہ اس پر آپ کا خصوصی حق تھا۔ عدالت اسی فیصلہ میں کہتی ہے کہ 1949 میں بہت قانون شکنی ہوئی اورمسجد میں
مسلمانوں کو نماز نہیں پڑھنے دی گئی۔ جب آپ نے اس کو مسجد مان لیا پھر تو یہی ہوا کہ اس میں نماز ہوتی تھی ۔ اگر اس میں نماز نہیں ہوتی تھی تو یہ ثابت کرنے کی
ذمہ داری دوسرے فریق پر ہونی چاہئے تھی۔اگر کوئی مسجد استعمال میں نہیں ہوتی ہے تو ریکارڈ میں لکھا جاتا ہے کہ غیرمستعملہ مسجد۔ یہ تو کہیں نہیں لکھا گیا۔
1528 سے 1857 تک مسلم حکومت تھی۔ اس وقت تو وہاں یقینی طور پر نماز ہورہی ہوگی۔ ماہر قانون کے طور پر مجھے فیصلہ میں تضاد نظر آتا ہے۔ انہوں نے
کہا کہ فیصلہ ثبوت کے قانون اورزمین کے قانون کے بارے میں جس طرح کا ضابطہ بنارہا ہے، وہ مستقبل میں پریشانی کھڑی کرسکتا ہے۔ عدالت نے سوجھ بوجھ
دکھائی ہے کہ اتنے بڑے مسئلہ کو حل کردیا ہے، لیکن قانون کی حکمرانی کےلئے سیکولرآئینی جمہوریت کےلئے یہ فیصلہ قانون کے اصولوں کے مطابق نہیں لگتا۔
فیصلہ کے بعد مسلم فریق کے پاس قانونی متبادل پر ماہر قانون پروفیسر مصطفی نے کہا کہ فیصلہ کے بعد مسلم فریق کے پاس ریویو کا حق ہوتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ
اس مسئلہ میں ریویو کی عرضی داخل کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں مسلمانوں کی بڑی جیت ہوئی ہے۔ ہندوﺅں کا ان پر سب سے بڑا الزام تھاکہ بابری
مسجد رام مندر توڑ کر بنائی گئی ہے، اسے سپریم کورٹ نے خارج کردیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بابر نے کسی مندر کو گراکر مسجد نہیں بنائی تھی ۔یہ اہم دلیل تھی،
جسے عدالت نے خارج کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندو فریق کا دعویٰ تھا کہ جنم استھان ہی اپنے آپ میں ایک قانونی فرد ہے، اسے بھی عدالت نے خارج کردیا۔ عدالت نے
یہ بات مان لی کہ 1949 میں مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا، عدالت نے یہ بھی کہا کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد گرانا بھی خلاف قانون تھا اورقانون کی
حکمرانی پر حملہ تھا۔ اس کے بعد متھرا، کاشی اوردوسرے متنازع مسائل اٹھائے جانے کے امکانات کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ ’ جب عملی فیصلہ سنانے کی
کوشش کی گئی تو عدالت کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اس ایشو کو کسی اورمعاملہ میں نہیں اٹھایا جائے‘۔ پروفیسر مصطفی نے کہاکہ ’آرایس ایس نے کہا ہے کہ
کاشی-متھراابھی ان کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں ہو۔ عدالت نے مقام پوجا قانون کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سیکولرزم کو برقرار رکھتا ہے۔ امید
ہے کہ اس طرح کا نیا مسئلہ نہیں کھڑا کیا جائے گا۔
فیصلہ قانون کے اصولوں کے مطابق نہیں لگتا:پروفیسر فیضان مصطفیٰ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS