واشنگٹن: (یو این آئی) افغانستان سے فوجی انخلا کا نیا خاکہ پیش کرتے ہوئےامریکہ کے صدر جوبائیڈن نے کہا کہ 11 ستمبر تک افغانستان سے سبھی امریکی فوجیوں کو واپس بلالیا جائے گا ۔
بائیڈن نے کہا ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبر کو ہوئے حملے کی 20 ویں برسی سے قبل افغانستان سے امریکی فوجیوں کے علاوہ ہمارے ناٹو اتحادی ممالک کے فوجیوں کو بھی واپس بلالیا جائے گا لیکن ہم دہشت گردی کے خطرے سے اپنی نظر نہیں ہٹائیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے اور اتحادی ممالک کے فوجیوں پر طالبان کے کسی بھی ممکنہ حملے کا جواب دینے کے لئے سبھی دستیاب طریقوں کا استعمال کرے گا۔
مسٹر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ، افغانستان میں دہشت گردی کے خطرے پر مسلسل نظر رکھے گا۔ امریکہ افغانستان کے حفاظتی دستوں کو مسلسل مدد بھی مہیا کراتا رہے گا۔انہوں نے اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کے بارے میں منصوبے کا خاکہ پیش کرتے ہوئے افغانستان کو مستحکم کرنے میں خطے کے ہمسایہ ممالک ‘بالخصوص پاکستان’ سے تعاون طلب کرلیا۔اس نئے منصوبے کے تحت 2 ہزار 500 امریکی اور 7 ہزار ‘نیٹو اتحاد’ کے فوجی بتدریج افغانستان سے نکلیں گے۔یہ منصوبہ یکم مئی سے شروع ہوگا اور 11 ستمبر 2021 کو اختتام پذیر ہوگا جو ‘ستمبر 2001’ میں امریکا میں ہونے والے حملے کی 20ویں برسی کا روز ہوگا جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکا نے جنگ کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان، روس، چین، ہندوستان اور ترکی سے افغانستان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہیں گے کیونکہ افغانستان کے مستحکم مستقبل میں ان سب کا مفاد ہے’۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘امریکہ افغان حکومت کو مالی، سیاسی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہے گا اور ملک کی دفاعی افواج کے لیے بھی اپنی امداد جاری رکھے گا’۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ‘اس منصوبے کی طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تیاری کی جارہی تھی’۔انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کے منصوبے میں نیٹو کی افواج بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم 20 سال قبل ہونے والے ایک خوفناک حملے کی وجہ سے افغانستان گئے تھے تاہم یہ اس بات کی وضاحت نہیں کہ 2021 میں بھی وہاں کیوں رہنا چاہیے، ہم افغانستان میں اپنے افواج کی موجودگی میں توسیع کو جاری نہیں رکھ سکتے ہیں، انخلا کے لیے مثالی حالات پیدا ہونے کی اُمید ہے اور مختلف نتیجے کی توقع ہے’۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی افواج پہلے ہی افغانستان میں ضرورت سے زیادہ عرصہ قیام کرچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب میں چوتھا امریکی صدر ہوں جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی صدارت کروں گا، دو ریپنلکنز، دو ڈیموکریٹس، اب میں اس ذمہ داری کو پانچویں صدر کی جانب نہیں بھیجوں گا’۔
جو بائیڈن نے یاد دلایا کہ جب صدر براک اوباما اور وہ 2009 میں حلف اٹھانے والے تھے تو صدر کی ہدایت پر وہ افغانستان گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں افغانستان کی وادی کنڑ گیا، جو پاکستان کی سرحد پر ایک ناہموار، پہاڑی علاقہ ہے، اس سفر میں جو کچھ دیکھا اس سے میرے اس عزم کو تقویت ملی کہ صرف افغانوں کا ہی حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی رہنمائی کریں اور زیادہ سے زیادہ اور نہ ختم ہونے والی امریکی فوجی قوت پائیدار افغان حکومت کو تشکیل یا اسے برقرار نہیں رکھ سکتی ہے’۔
میڈیا ذرائع کے مطابق جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس یقین کے ساتھ واپس آئے تھے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کو یہ یقینی بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے کہ نائن الیون کے حملے کی طرح کے واقعے کے لیے افغانستان سرزمین کا استعمال نہیں کیا جاسکے’۔
امریکی صدر نے اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے یہ کیا، ہم نے اس مقصد کو پورا کیا، میں نے اور دیگر نے کہا کہ ہم اسامہ بن لادن کا پیچھا کریں گے’۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جو بائیڈن نے سابق صدر مملکت جارج بش اور باراک اوباما سے انخلا کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا تھا اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اب فوجی دستوں کو واپس لانے کا وقت آگیا ہے۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو مکمل کرنے کے حوالے سے صحیح فیصلہ کیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں تقریبا دو دہائی تک رہنے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہم فوری طور پر جو حاصل کرسکتے تھے اسے حاصل کرچکے ہیں اور اب اپنی باقی کی فوج وطن واپس لائیں گے’۔
ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ‘افغانستان سے امریکی فوجیوں کے محفوظ، اسٹریٹجک اور منظم انداز میں روانگی کے لیے ٹائم لائن ایک اہم اور خوش آئند پیش رفت ہے’۔
دوسری طرف سینیٹ میں اقلیتوں کے رہنما مچ میک کونل نے کہا کہ ‘فوری طور پر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے، یہ ایک ایسے دشمن سے منہ موڑنا ہے جسے ابھی تک امریکی قیادت نے فتح نہیں کیا ہے’۔ایک اور ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ ‘امریکی صدر نے حقیقت میں نائن الیون کے خلاف ایک اور انشورنس پالیسی منسوخ کر دی’۔
تاہم صدر جو بائیڈن نے یہ تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ‘میں 40 سالوں میں پہلا صدر ہوں جو جانتا ہے کہ جنگ کے میدان میں آپ کے بچوں کی موجودگی کا کیا مطلب ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے پاس ایسے اہلکار بھی ہیں جو نائن الیون کے حملے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، افغانستان میں جنگ نسلوں پر مشتمل نہیں تھی’۔
دریں اثنا کابل میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب سے فون پر بات کی ہے اور جنگ سے متاثرہ ملک سے اپنی افواج کی منتقلی کے ان کے فیصلے کا احترام کیا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ‘افغانستان کی سیکیورٹی اور دفاعی فورسز اپنے عوام کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں’۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS