نئی دہلی: ہندوستانی فوج کے ایک افسر کی جانب سے فوجی اہلکاروں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر عائد پابندی کے خلاف دائر درخواست پر دہلی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جس کے بعد کورٹ نے عبوری ریلیف دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سینیئر آرمی افسر لیفٹیننٹ کرنل پی کے چودھری کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر’آپ فیس بک کو زیادہ پسند کرتے ہیں تو آپ کے پاس استعفیٰ دینے کا اختیار ہے۔‘درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا کہ ان کے خاندان کے افراد بیرون ملک مقیم ہیں اور سوشل میڈیا کا استعمال کیے بغیر ان سے رابطہ کرنا مشکل ہوگا لہٰذا انہیں فوج کے قواعد و ضوابط کے برخلاف سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہائی کورٹ نے انہیں اپنا فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اکاؤنٹ بعد میں بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ہندوستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس نے رواں ماہ کے شروع میں ایک حکم جاری کیا تھا، جس کے مطابق فوج میں کام کرنے والے 13 لاکھ فوجیوں کو 89 ایپس کی ایک فہرست دی گئی ہے، جو انہیں اپنے فون سے 15 جولائی تک ڈیلیٹ کرنی تھیں۔ اس فہرست میں امریکی سماجی رابطوں کی سائٹ فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹرو کالر شامل ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ یہ حکم سکیورٹی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا گیا ہے تاکہ حساس معلومات کو افشا ہونے سے بچایا جا سکے۔ غور طلب ہے کہ چند روز قبل ہندوستانی حکومت نے ملک میں 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں ٹک ٹاک، وی چیٹ وغیرہ شامل تھے۔ ماضی میں بھی فوج میں فیس بک کے استعمال سے متعلق بہت ساری ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔ اسی طرح فوج کے اہلکاروں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ باضابطہ کام کے لیے میسجنگ ایپ واٹس ایپ کے استعمال کو کم سے کم کریں۔
سوشل میڈیا ایپس کے استعمال کا سب سے بڑا خطرہ ڈیٹا کی چوری ہے۔ تاہم یہ ڈیٹا چوری صرف فوج تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ تمام سوشل میڈیا صارفین کو ہے۔ البتہ فوج میں کام کرنے والوں کے لیے یہ معاملہ زیادہ سنجیدہ ہے کیوں کہ یہ ایپس کئی بار استعمال کرنے والوں کی حرکات و سکنات اور مقام کو ٹریک کر سکتی ہیں اور صارف کے فون کا مائیک یا کیمرہ استعمال کر سکتی ہیں، جو سکیورٹی کے معاملے میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سائبر ماہر پون دُگّل کے مطابق’ایپس ہم سے کئی طرح کی اجازت مانگتے ہیں اور ہم اکثر پڑھے بغیر اجازت دے دیتے ہیں۔ یہ اجازت سوشل میڈیا کمپنیوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ ہماری لوکیشن سے لے کر تصاویر تک رسائی حاصل کر لیں۔ ایک سپاہی کے فون کی تصویر سے اس کی لوکیشن سے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، جو ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔‘یہ پہلا موقع نہیں جب سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے فوج میں بحث ہوئی ہو۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا کہنا ہے کہ 'یہ بحث گذشتہ آٹھ، 10 سال سے جاری ہے۔ اس طرح کی بحث دوسرے ممالک میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ہر سپاہی کے پاس فون ہوتا ہے۔ سب افواج نے اس کے بارے میں رہنما اصول بنائے ہیں، تاہم اگر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہو تو وہ بھی ایک معقول اقدام ہے۔‘سابق جنرل پناگ کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے’ہنی ٹریپ‘کا بھی خطرہ ہے۔ پناگ کے بقول ’سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر اور اپنے خاندان سے دور رہنے والے فوجیوں کو ورغلا کر، اپنی شناخت چھپانا اور فوجیوں سے بات کرنا ایک عام بات ہے۔ ہم نے ایسی بہت سی خبریں اور معاملات دیکھے ہیں۔‘ سابق جنرل پناگ کے مطابق فوج کے لیے اس پابندی کا نفاذ آسان نہیں ہو گا۔ دوسری جانب سائبر ایکسپرٹ پون دُگّل کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے وابستہ خطرہ نہ صرف فوج بلکہ نیم فوجی دستوں اور پولیس کو بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیٹا لیک اور ہنی ٹریپ کا خطرہ دونوں موجود ہے۔ ہر محکمے کو اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی سطح پر کوشش کرنی ہوگی۔ فوج کی تشویش اور سنجیدگی دونوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ ملک کی سرحدوں پر ہیں۔ اگر اس سطح پر معلومات لیک ہوجائیں، تو پھر ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘جب سوشل میڈیا کا استعمال عام نہیں تھا تو اس وقت بھی ہندوستانی فوج کے اہلکاروں پر طرح طرح کی چیزوں سے متعلق پابندیاں عائد تھیں۔
جنرل پناگ کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ جب میں 50 سال قبل فوج میں آیا تھا، تو کیمرے کے استعمال کو خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ اگر آپ کے پاس کیمرا ہوتا تو فوج کو اسے رجسٹر کرنا پڑتا تھا۔ ٹرانزسٹرز اور ریڈیو کے حوالے سے بھی فوج احتیاطی تدابیر اختیار کرتی تھی۔ سوشل میڈیا آج کا مسئلہ ہے۔ اگر خطرہ زیادہ ہے تو پابندی لگانا ہی واحد حل ہے۔‘صرف انڈیا ہی نہیں، بہت سے دوسرے ممالک میں بھی سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے استعمال سے متعلق رہنما اصول موجود ہیں۔ سنہ 2019 سے روس نے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خوف سے فوجیوں کے اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ فوجیوں کو ایسے موبائل فون استعمال کرنے سے منع کیا گیا تھا، جس میں تصاویر لینے، ویڈیو ریکارڈ کرنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی سہولت موجود ہو اور صرف بنیادی کالنگ فونز کے استعمال کی اجازت ہے۔ امریکہ نے بھی فوجیوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق بہت سے قواعد بنائے ہیں۔ سنہ 2018 میں ایک فٹنس کمپنی نے امریکی فوجیوں کے ورزش کے معمول سے متعلق معلومات شیئر کیں، جس کے بعد امریکہ میں سوشل میڈیا اور حفاظت کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے گئے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے فوجیوں کے سرکاری فون پر چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی ہے۔