ہندوستان بمقابلہ چین: کیا یہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا تصادم ہوگا؟

0

نئی دہلی: سنہ 2020 کے ابتدائی چھ سات ماہ پر نظر ڈالی جائے تو ہمالیہ میں چار ہزار میٹر کی اونچائی پر ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپ یقیناً وہ واقعہ ہے جو تاریخ میں درج ہو گیا ہے۔ دونوں ممالک سرحد پر گولی نہ چلانے پر متفق تھے، تاہم ناموافق اور دشوار گزار علاقے میں ہونے والی زبردست لڑائی کی وجہ سے کئی ہندوستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔ جس کے بعد کئی دہائیوں بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ گزشتہ جمعہ کی یہ خبر ہی لے لیجیے، جس میں ہندوسان نے اپنے تجارتی قوائد میں ایک اہم تبدیلی کی ہے۔ اس تبدیلی کے مطابق حکومتی کانٹریکٹس میں بولی لگانے والی کمپنیاں ایسا اسی صورت میں کر سکیں گی، جب وہ ڈیپارٹمنٹ فار پروموشن آف انڈسٹری اینڈ انٹرنل ٹریڈ کی رجسٹریشن کمیٹی میں رجسٹر ہوں۔ اس کا اطلاق ان ممالک پر ہوتا ہے جن کی سرحدیں انڈیا کے ساتھ ملتی ہیں اور جو سرکاری خرید میں حصہ لیتے ہیں۔ اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ اثر چین کے ساتھ تجارت پر پڑے گا۔ ہندوستان اور چین جوہری اسلحہ سے لیس، صرف ہمسائے ہی نہیں بلکہ دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھی ہیں۔ دونوں ہی اس صدی کے آخر تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے دعویدار بھی ہیں۔ لیکن اس سال جون میں وادی گلوان میں ہونے والی پرتشدد جھڑپ نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ اس میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ کیا ہندوستان بمقابلہ چین اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جھگڑا، سب سے بڑی رقابت ثابت ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کچھ ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات کی گئی۔
سینٹر فار نیو امیریکن سکیوریٹیز کے ڈیفنس پروگرام میں سینیئر فیلو کرس ڈوہٹی کہتے ہیں ’سرحد پر جب اس طرح کی جھڑپیں ہوتی ہیں تو دماغ کے ایک حصے میں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے جنگ بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر تب جب دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہوں۔‘ ہمالیہ کے پہاڑوں میں ہندوستان اور چین کی سرحد تین ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ طویل ہے۔ جون کے مہینے میں جس گلوان وادی میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، اس علاقے پر ہندوستان اور چین دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ کرس ڈوہٹی کہتے ہیں ’یہاں آپ دشوارگزار پہاڑوں اور آکسیجن کی کمی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی گاڑیوں سے بھی لڑتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے بھی چلنا مشکل ہوتا ہے۔ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی مٹی یا برف کے تودے گرنے سے تباہ ہو سکتا ہے۔ ان راستوں پر آگے بڑھنا ایک چیلینج ہوتا ہے۔‘جس علاقے میں خونریز جھڑپ ہوئی، اس علاقے میں دونوں ممالک بہتر طریقے سے گشت کرنے کے لیے سڑکیں بناتے رہے ہیں۔
ہندوستان کا خیال ہے کہ اس کی فوج چین کی پیپلز لیبریشن آرمی کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے حالانکہ چین کا فوجی بجٹ، ہندوستان کے بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ ایسے میں کبھی دونوں ممالک کے درمیان وادی گلوان جیسی صورت حال دوبارہ پیدا ہو گئی تو کس کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے؟ اس سوال پر کرس ڈوہٹی کہتے ہیں’تب ہو سکتا ہے کہ چین زمین کا کچھ حصہ ہڑپ کر لے اور اسٹریٹیجک لحاظ سے کچھ اہم ٹھکانوں پر قبضہ کر لے لیکن زمین کے ہر انچ کے بدلے چین کو اس لڑائی میں بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ حالانکہ نقصان انڈیا کا بھی ہوگا، دونوں طرف سے فوجی مارے جائیں گے لیکن اس لڑائی میں فتح کسی کی نہیں۔‘
اقتصادی محاذ پر کیا اثر ہوگا؟
اننت کرشن پیشے سے صحافی ہیں اور ’انڈیا چائنا چیلنج‘ کے نام سے ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ اس کتاب میں چین کے آگے بڑھنے سے ہندوستان پر پڑنے والے اثر کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اننت کرشن کہتے ہیں ’سنہ 2000 کے آغاز تک ہندوستان اور چین کے تجارتی تعلقات بہت کم تھے، لیکن پچھلے بیس سال میں تجارت تیزی سے بڑھی۔ انڈیا کو چین میں بنا سامان پسند آنے لگا اور چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا۔ سالانہ دوطرفہ کاروبار کا حجم 94 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس میں 75 ارب ڈالر کی مصنوعات ہندوستان نے چین سے خریدیں یعنی چین انڈیا پر جبکہ انڈیا چین پر زیادہ منحصر رہا۔‘’وادی گلوان میں خونریز جھڑپ کے بعد ہندوستان میں چین سے آنے والے سامان کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ ہندوستان نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی لگا دی۔‘
اس بارے میں اننت کرشن کہتے ہیں ’چین میں بنے سامان اور چینی سرمایہ کاری پر مکمل پابندی ممکن نہیں۔ ہندوستان کئی شعبوں میں چین سے آنے والے سامان پر انحصار کرتا ہے۔ چین جس قیمت پر سامان بناتا ہے ویسا کرنے والے زیادہ ملک نہیں ہیں۔‘ فارماسیوٹیکل انڈسٹری ایک ایسا ہی شعبہ ہے۔ ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے سامان کا بڑا حصہ ہندوستان چین سے ہی خریدتا ہے۔ اسی طرح چین سے آنے والے آٹو پارٹس، فولاد اور اسٹیم سے بنی چیزیں اور کیڑے مارنے والی ادویات انڈین معیشت کے لیے ضروری ہیں۔ انڈیا میں چین کی سرمایہ کاری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اننت کرشن کے مطابق ’ہندوستان میں چین ایک بڑے سرمایہ کار کے طور پر ابھرا۔ انڈیا کے اسٹارٹ اپس میں چین نے تقریبا پانچ چھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ انڈیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں میں بھی چین نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی محاذ پر چین سے جنگ ہندوستان کے حق میں نہیں۔‘انہوں نے مزید کہا’مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کا جہاں فائدہ ہوگا وہاں حکومت چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرے گی۔ مثلاً چین کی سرمایہ کاری سے کوئی فیکٹری بنتی ہے اور اس سے ہندوستانی شہریوں کو روزگار ملتا ہے، لیکن ساتھ ہی جہاں معاملہ حساس ہوگا وہاں ہندوستانی حکومت اس سرمایہ کاری کی باریک تحقیقات کرے گی۔‘
ہندوستان کافی وقت سے یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ جو غیر ملکی کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں وہ چین کی جگہ انڈیا کا انتخاب کریں، لیکن اننت کرشن کا خیال ہے کہ انڈین حکومت کی یہ کوشش زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ ’حکومت کئی برسوں سے ہندوستان کو پیداوار یا مینیوفیکچرنگ کے شعبے میں پاور ہاؤس بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے سنہ 2014 میں پہلی باری اقتدار سنبھالنے کے بعد ’میک ان انڈیا‘مہم بھی شروع کی تھی تاہم گزشتہ چھ سال میں چین پر ہندوستان کا انحصار کم ہونے کی جگہ بڑھا۔‘ اس کے باوجود انڈیا کے پاس ایک بڑی طاقت ہے اور وہ ہے اس کا بڑا بازار۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی ہر کمپنی ہندوستان کا رخ کرنا چاہتی ہے۔
ایشیا کا مستقبل
تنوی مدان واشنگٹن ڈی سی میں بروکنگس انسٹیٹیوٹ کے فارن پالیسی پروگرام میں سینیئر فیلو ہیں۔ انہوں نے ’فیٹ فُل ٹرائی اینگل: ہاؤ چائنا شیپڈ یو ایس انڈیا ریلیشنز ڈیورنگ دی کولڈ وار‘کے عنوان سے حال ہی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
تنوی مدان کہتی ہیں’ہندوستان اور چین کے درمیان تصادم کی کئی وجوہات ہیں اور ان وجوہات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان چین تعلقات اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ اقتصادی تعلقات سے سیاسی کشیدگی کم نہیں ہوتی۔‘ وادی گلوان میں فوجیوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’انڈیا چین تعلقات میں یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ مستقبل میں اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ساری دنیا پر اس کا اثر نہ پڑے لیکن ایشیا کی سیاست اور ایشیائی ممالک کے تعلقات پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔‘
وادی گلوان میں ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کے بعد ایسا لگا کہ چین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کو آخر ساؤتھ چائنا سی، تائیوان اور ہانگ کانگ پر بھی نظر رکھنی ہے۔ حالیہ سرحدی تصادم اور کشیدگی سے پہلے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم مودی کئی بار گرم جوشی سے ملاقات کر چکے ہیں۔ تنوی مدان نے کہا کہ دونوں رہنماؤں میں کچھ مماثلت ہے، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ’دونوں نے خود کو ایک مضبوط شخص کے طور پر دکھایا ہے۔ ایک ایسا مضبوط شخص جو اپنے ملک کو ایک نئے دور میں لے جا سکتا ہے۔ پھر وہ چاہے چائنیز ڈریم ہو یا پھر ہندوستان کو دوبارہ شاندار بنانے کی بات ہو۔‘
لیکن چین کی کوشش ایشیا کا باس بننے کی رہی ہے، جب کہ ہندوستان کو لگتا ہے کہ اسے چین جیسے کسی باس کی ضرورت نہیں۔ وادی گلوان میں ہونے والی جھڑپ کے بعد انڈیا کی توجہ اپنے اسٹریٹیجک حامیوں کی طرف گئی۔ انہوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ پندرہ جون کے واقعے کے بعد انڈیا کے پالیسی سازوں کو یہ بات اور بہتر طریقے سے سمجھ میں آگئی ہے کہ ان کی پالیسی ہمیشہ بیچ کا راستہ تلاش کرنے کی نہیں ہو سکتی۔ خاص طور پر تب جب بات امریکہ اور چین کی ہو۔ انہیں کبھی امریکہ کی طرف جھکنا ہوگا تو کبھی روس جیسے ممالک کی طرف جانا ہوگا۔ روس سے ہندوستان کو ہتھیار ملتے ہیں لیکن روس کے چین سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اس لیے انڈیا چین کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران روس تھوڑا کنفیوژن میں پڑ گیا۔ دوسری طرف پاکستان کا ہندوستان کے حوالے سے جو رویہ ہے اس سے سب واقف ہیں۔ اس سب کے پس منظر میں تنوی مدان کہتی ہیں ’چین اب پاکستان کے ساتھ اپنا تعاون مزید بڑھانا چاہے گا۔ 'مجھے شک ہے کہ چین پاکستان سے آگے بڑھ کر نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ میں اپنی موجودگی اور اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔‘تنوی مدان نے مزید کہا کہ انڈیا اس کے جواب میں ایسے اتحادی چاہے گا جو نہ صرف چین کو بیلینس کرنے میں اس کی مدد کریں بلکہ انڈیا کی فوجی اور اقتصادی صلاحیتوں کو بھی بڑھائیں۔ ایسے میں ہندوستان کی نظر امریکہ اور یورپی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان، ویتنام اور انڈونیشیا پر بھی ہوگی۔
وولف واریئر ڈپلومیسی
یو جیئے برطانوی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس میں چینی امور پر ریسرچ فیلو ہیں۔ جنکا کہنا ہے’وولف واریئر ڈپلومیسی ایک نیا فقرہ ہے۔ یہ ایک فلم سے لیا گیا ہے، جس کا نام ہے وولف واریئر۔ یہ ان مقبول چینی فلموں میں سے ایک ہے جس میں دکھایا گیا کہ چین کی پی ایل اے ملک کی حفاظت کرنے اور غیر ملکیوں کو سبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ چین نے مجموعی طور پر جو رخ اپنایا ہے اس میں دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدوں کے لیے بہت کم گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی سفارتکار اپنے میزبان ممالک میں بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ یو جیئے نے کہا ’چین کو لگا کہ انہوں نے کورونا وائرس پر قابو پا لیا ہے، اس لیے ان کے پاس دنیا بھر میں پی پی ای کٹس بھیجنے اور اپنا تجربہ شیئر کرنے کی ایک ٹھوس وجہ موجود ہے۔ سننے میں یہ سب بہت مثبت لگتا ہے۔‘اس معاملے میں بھی چین کے لہجے میں مٹھاس نہیں تھی۔ ہندوستان ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے کورونا وبا پر چین پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ چین اس مشکل کا فائدہ اٹھا کر علاقے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یو جیئے کا یہ بھی خیال ہے کہ مغربی ممالک اور چین کے درمیان بڑھتے فاصلے ہندوستان کے حق میں کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’مجھے لگتا ہے کہ سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہندوستان اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوا۔ ہندوستان کے اندر قوم پرستی کو بڑھاوا ملا تاہم دونوں ملکوں کے درمیان جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے روابط اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ انڈیا کس حد تک چین کو بالکل نظر انداز کر سکتا ہے وہ الگ بات ہے۔‘ پھر بھی ماہرین کا خیال ہے کہ آبادی اور معیشت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ہندوستان اور چین کے تعلقات کی اہمیت مستقبل میں کم نہیں ہوگی۔ ان دونوں بڑے ممالک کے درمیان کسی بھی طرح کا مقابلہ ان کے اختلافات کو یقینی طور پر بڑھائے گا، جس کا براہ راست اثر ایشیا اور باقی دنیا کی سیاست پر بھی پڑے گا۔ فی الحال تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مستقبل قریب میں شی جن پنگ اور وزیر اعظم مودی پہلے کی طرح جھولا جھولتے نظر آئیں۔ 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS