ملک ہو یا فرد اس کی اچھائی، سچائی اور اتحاد کا اندازہ مصیبتیں آنے پر ہی ہوتا ہے اور یوکرین جنگ نے بھی یوروپی ملکوں کے اتحاد کی حقیقت آشکارا کر دی ہے۔ چند برس پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ یوروپی ممالک متحد ہیں، خاص کر سوویت یونین کے بکھراؤ اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اب یوروپ بٹا ہوا نہیں ہے مگر یوکرین کی جنگ نے یہ بتا دیا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ جو نظر آتا ہے، وہی سچ بھی ہو، ورنہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وارسا پیکٹ کے تحلیل ہو جانے کے بعد ناٹو بھی تحلیل کر دیا جاتا اور اگر اسے تحلیل نہیں کیا گیا تھا تو اس کی توسیع نہیں کی جاتی تاکہ روس کو یہ اندیشہ پیدا نہ ہو کہ اس کے وجود کو ہی مٹا دینے کا منصوبہ ہے مگر ایک کے بعد ایک ملک کو ناٹو کی رکنیت دی جاتی رہی۔ جلد ہی روس نے یہ اندازہ کر لیا کہ اسے گھیر لیا جائے گا،اس کی سرحدوں سے متصل ممالک ناٹو کے رکن بن جائیں گے۔ اس سے یہ ہوگا کہ اسے بھی مغربی یوروپ کے ان ملکوں کی طرح بننا پڑے گا جن کی پالیسی اکثر وہی ہوتی ہے جو امریکہ کی پالیسی ہوتی ہے، جو وہی کرتے ہیں جو امریکہ چاہتا ہے، اس لیے یہ بات طے سی تھی کہ وہ وقت پڑنے پر اس طرح طاقت کا اظہار کرے گا کہ خوش فہمی میں مبتلا یوروپی ممالک ہوش کے ناخن لیں گے اور حالات کے مدنظر ہی فیصلے لیں گے، اقدامات کریں گے۔ 2008 میں ولادیمیر پوتن کے روس نے جارجیا کے خلاف کارروائی کی تھی، اس لیے یہی بات سوچی جا سکتی تھی کہ روس، جارجیا کے خلاف ہی کوئی بڑی فوجی کارروائی کرکے امریکہ کے اتحادی یوروپی ملکوں کو اشارے دے گا مگر 2014 میں اس نے یوکرین کے خلاف محاذ کھولا تویہ اندازہ ہوا کہ روس کے نشانے پر اور بھی ممالک ہیں۔ بعد میں یوکرین سے اس کے تعلقات کسی حد تک نارمل ہوگئے تھے مگر پہلے جارجیا اور پھر یوکرین کے خلاف روس کی کارروائی سے یوروپی ملکوں کے اتحاد کی حقیقت سامنے آگئی تھی اور اسی لیے اس بات کا اندیشہ تھا کہ روس کی کارروائی اب زیادہ بڑی ہوگی، کیونکہ وہ فوجی کارروائی کرے گا نہیں تواس کا دائرۂ اثر بڑھے گا نہیں اور یوروپی ملکوں کے اتحاد کا بھرم بھی نہیں ٹوٹے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ یوروپی ملکوں کے اتحاد کا بھرم توڑنا روس کے لیے کیوں ضروری تھا؟ اس سوال کا جواب ایک جملے میں دینا ممکن نہیں اور کوئی حتمی جواب دینا بھی ممکن نہیں، البتہ لگتا یہی ہے کہ روس نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی کہ امریکہ کو طاقتور بنانے میں یوروپی ممالک اہم کردار ادا کرتے ہیں،کیونکہ امریکہ کے ساتھ اگر ناٹو نہ ہو تو پھر وہ تنہا رہ جائے گا۔ اسی لیے امریکہ کی طاقت کا بھرم توڑنے کے لیے اس کے اتحادی یوروپی ملکوں کی طاقت کا بھرم توڑنا ضروری ہے اور یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ کر وہ یہ دکھانے میں کامیاب رہا ہے کہ یوروپی ممالک جتنے متحد نظر آتے ہیں، اتنے متحد نہیں ہیں۔ بیشتر یوروپی ممالک یوروپی اتحاد سے پہلے اپنے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یوکرین جنگ سے پہلے برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی بھی اس بات کا اشارہ تھی کہ یوروپی ممالک پہلے کی طرح متحد نہیں رہے، حالات نے انہیں اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
امریکہ نے اوکس کی تشکیل کی تو اس میں آسٹریلیا کے ساتھ برطانیہ کو رکھا مگر فرانس کو شامل نہیں کیا۔ اس پر فرانسیسی صدر میکروں کتنے ناراض ہوئے تھے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح یوکرین جنگ شروع ہوئی تو ایسا لگا کہ برطانیہ، روس کے خلاف ہے مگر فرانس اور جرمنی اس کی طرح روس کے خلاف نہیں ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن 24 اگست کو بھی یوکرین کے دورے پر گئے اور یہ ان کا پہلا یوکرین دورہ نہیں تھا جبکہ یوکرین جنگ سے پہلے رواں سال کے فروری کے پہلے ہفتے میں فرانس کے صدر میکروں روس کے دورے پرگئے تھے ۔ اس وقت ماسکو نے یہ کہا تھا کہ میکروں کی تجویز حقائق پر مبنی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کے دو ہفتے بعد ہی اس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ میکروں کے دورۂ روس کے دوران ایک اور خبر نے عالمی اور بالخصوص یوروپی ملکوں کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی۔ خبر یہ تھی کہ روسی سربراہ ولادیمیر پوتن سے میکروں کی گفتگو عجیب و غریب طریقے سے ہوئی تھی۔ ایک لمبے سے ٹیبل کے اس طرف پوتن بیٹھے تھے اوراس طرف میکروں۔ اس وقت یہ بات موضوع بحث بنی تھی کہ کیا پوتن نے میکروںسے گفتگو کے لیے لمبے ٹیبل کا استعمال کرکے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ روس اور یوروپی ملکوںکے درمیان اسی طرح کافی گیپ ہے؟ یوکرین جنگ جاری ہے۔ اب آگے دیکھئے،پوتن کیا کیا اشارے دیتے ہیں۔ n
یوروپی اتحاد حقیقت آشکارا ہوگئی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS