مہاجرین کی اسمگلنگ کرنے والے نیٹ ورک کا پردہ فاش

0

بروسلز (ایجنسیاں) : یوروپی پولیس نے ایک نہایت خطرناک اسمگلنگ نیٹ ورک کی گرفتاری اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس بارے میں دی ہیگ سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے جمعہ 3 جون کو موصول ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ یوروپی یونین کی پولیس ایجنسی یوروپول نے گزشتہ برس اگست میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن کو مربوط بنایا تھا۔ اس ایجنسی نے مہاجرین کی اسمگلنگ کرنے والے ان اسمگلرز کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گھناؤنا کاروبار کرنے والا ’اسمگلنگ بادشاہوں کا گروہ‘ ہزاروں کی تعداد میں مہاجرت اختیار کرنے والوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یوروپی پولیس نے اس گروہ کے لیے ’کنگ پنز‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب ہے ’اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث افراد کے محور یا مرکز‘ کی حیثیت رکھنے والا گروپ۔ پولیس نے اس نیٹ ورک سے وابستہ 8 چوٹی کے اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے نیٹ ورک کو تباہ کردیا گیا ہے۔
یوروپی پولیس کے مطابق انسانی اسمگلنگ کرنے والے 8 بڑے گروہ جنہیں پوروپی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کا محور قرار دیا ہے، نے تقریباً 10 ہزار افغان، پاکستانی اور شامی مہاجرین کو براعظم یوروپ تک پہنچانے کا کاروبار کیا ہے۔یوروپی یونین کی پولیس فورس یوروپول نے کہا ہے کہ جرمنی کی قیادت میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ، سربیا اور نیدرلینڈز پر مشتمل ٹاسک فورس نے بھی انسانی اسمگلرز کے اس نیٹ ورک کے 126 ساتھیوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ آسٹریا سے پکڑے گئے ہیں۔یوروپول، جس نے گزشتہ سال اگست میں شروع کیے گئے آپریشن کو مربوط کیا تھا، نے مہاجروں کی اسمگلنگ کے ان ’بادشاہوں‘ کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیا۔دی ہیگ میں قائم یوروپی یونین پولیس ایجنسی کی طرف سے جمعے کو سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ،’یہ یورو پول کے بہت اعلیٰ اہداف میں شامل ہیں۔ خاص طور سے شامی باشندوں کے گلوبل کنکشنز یا عالمی روابط تھے جن کے ذریعے ٹرانزٹ اور اسمگل کیے گئے افراد کو آخری منزل تک پہنچانے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ،’ ان تفتیشی کاررائیوں کے نتائج سے انکشاف ہوا ہے کہ اسمگلرز کے ہاتھوں چڑھنے والے انسانوں میں زیادہ تر افغان، پاکستانی اور شامی نژاد باشندے ہیں جنہیں پوروپی یونین ممالک تک اسمگل کرنے میں سہولت فراہم کی گئی۔‘
مزید برآں یہ کہا گیا کہ پچھلے سال آپریشن میں 151 گھروں کی تلاشی لی گئی جس سے اسمگلنگ کے 916 واقعات کا پتہ چلا۔ نیز اس کارروائی کے دوران تلاشی کے مقامات سے قریب ایک ملین یورو کا اثاثہ بھی ضبط کیا گیا۔
اسمگلروں نے ترکی سے تارکین وطن کو مغربی بلقان کے علاقے، رومانیہ اور ہنگری کے راستے آسٹریا، جرمنی اور ہالینڈ کی طرف لے جانے کے لیے لاریوں، بند وینز اور ذاتی کاروں کے کارگو کا استعمال کیا۔
یوروپول کے مطابق مشتبہ اسمگلرز چار تا دس ہزار یورو وصول کر کے تارکین وطن یا مہاجروں کو یورپی سرحد پار کرانے کا کاروبار چلا رہے تھے۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر ایسے افراد شامل تھے جو انتہائی غربت کا شکار تھے اور اکثر ان کی جانوں کو خطرات لاحق تھے۔
اسمگلروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی خدمات کی تشہیر ’مہاجروں کے لواحقین کو یہ باور کرانے کے لیے کی کہ یہ محفوظ طریقہ ہے۔‘ اکثر مختصر ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مبینہ طور پر محفوظ اسمگلنگ سروسز کا یقین دلایا۔ یوروپول کے مطابق اسمگلرز کو ان کی فیس یا مالی ادائیگیاں بنیادی طور پر نام نہاد ’حوالہ انڈر گراؤنڈ مالیاتی نظام‘ کے ذریعے کی جاتی تھیں، جو رقم کی منتقلی کا ایک غیر رسمی نیٹ ورک ہے۔ یہ ٹرانزیکشنز ’فیس ٹو فیس‘یعنی آمنے سامنے کی جاتی تھی۔ اس طرح کی لین دین کا پتہ لگانا بینک ٹرانسفر سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
جرمن وفاقی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی 6 اہم مشتبہ افراد کو تلاش کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS