ایتھوپیا:یہ خانہ جنگی ہے یا صلیبی جنگ

0

ایتھوپیا کے آرتھوڈاکس عیسائی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک جو افریقہ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس سرزمین میں ان کے مفادات ہیں، ایتھوپیا کی عیسائی آبادی پر کافی توجہ دیتے رہے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ’ورلڈفیکٹس بک‘ کے مطابق ایتھوپیا میں عیسائیوں کی تعداد 61فیصد ہے، مگر ایک بڑے طبقے کی رائے ہے کہ یہ اعدادوشمارحقائق پر مبنی نہیں ہے اور مغربی طاقتیں اپنا عمل دخل بڑھانے کے لیے اس ملک کو ایک عیسائی ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 2018میں ابی احمد کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات بدلے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کے طورپر احمد کو اہمیت دے کر مغربی ممالک کو اپنی غلطی کا احساس ہورہاہے۔ ایک طبقہ کی رائے کہ احمد پرانے حریف اور پڑوسی ملک اریٹیریا کے ساتھ مراسم بڑھا کر تگرے میں علیحدگی پسندوں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تگرے مسلح آرمی 28سال تک حکومت کرتی رہی اور کبھی بھی مغربی ممالک نے خانہ جنگی پراتنی واویلا نہیں مچائی۔ اب القاعدہ اور الشباب کے بارے میں کہاجارہاہے کہ اس نے عمل دخل بڑھا لیاہے۔ حالات کو بگڑتا دیکھ کر ابی احمد نے مغربی ممالک کی ناک میں نکیل ڈالنے کے لیے روس سے راہ و رسم بڑھا لیے ہیں اور مغربی ممالک کی منشا کیا ہے، وہ صاف دکھائی دینے لگی ہے۔
افریقہکے کئی ممالک کی طرح ایتھوپیا میں بھی اس وقت خانہ جنگی اور فاقہ کشی کا ماحول ہے۔ پورا ملک بدترین قبائلی، نسلی اور لسانی خلفشار کا شکار ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسل کے لوگ چند سال پہلے تک جہاں حکمرانی کررہے تھے، مگر اب ایک نسبتاً نوعمر ابی احمد جمہوری طورپر منتخب سرکار کی قیادت کررہے ہیں۔ ایک زمانے میں جب اہل مغرب کی جمہوریت پسند کے عروج پر بھی ابی احمد کو ایک معقول صلح پسند اور تمام طبقات اور قبیلوں کا لیڈر بنا کر پیش کیا جارہاتھا مگر اب وہ جب سے مسلح علیحدگی پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں تو ان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا جابر حکمراں بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ، امدادی ادارے انسانی حقوق کی تنظیمیں2020سے لاگو کیے گئے فائربندی سمجھوتے کے ختم ہونے کے بعد سے ہی ایتھوپیا کی حکومت پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگارہے ہیں۔ یہ جنگ بندی 24اگست کو اس وقت ٹوٹ گئی تھی جب تگرے پیوپلزلبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) نے حکومت کی ایک فوجی چوکی پرحملہ کیا تھا۔ جیسا کہ نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ ایک مسلح جدوجہد کرنے والی علیحدگی پسند تنظیم ہے جو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔
اس وقت ابی احمدجمہوری طورپر منتخب سرکار کے وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے خانہ جنگی اورقبائلی جدوجہد ختم کرنے کے لیے کوششیں کیں اور عالمی برادری نے ان کی خدمات کو سراہا۔ دراصل ان کے اقتدار میں آنے سے قبل تگرے پیوپلز لبریشن فرنٹ اس علاقے میں اپنی منی ریاست قائم کیے ہوئے تھا۔
ایتھوپیا کے مختلف خطے علیحدگی پسندتحریکوں کی زد میں ہیں اور کچھ مسلح گروپ قبائلی اور لسانی شناختوں پر قائم ہیں۔ مثلاً اورومولبریشن آرمی (Oromo Liberation Army)(اوایل اے) اپنی اورومو نسل کے لوگوں کے حق خودارادیت کے لیے برسرپیکار ہے، یہ نسل ایتھوپیا کی سب سے بڑی آبادی والی نسل ہے۔ اسی طرح جنوبی ایتھوپیا میں بھی کافی علیحدگی پسندانہ جذبات بھڑکانے والی تنظیمیں سرگرم ہیں۔
ابی احمد کی سرکار کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے علیحدگی پسندوں کو لگام دینا اور مسلح جدوجہد کے خلاف کارروائی کرنا ہے، کیونکہ اسی خانہ جنگی کی وجہ سے ایتھوپیا میں امن وامان نہیں ہوپارہاہے اوراس بہانے کئی غیر ملکی اور پڑوسی ممالک کی مسلح تنظیم اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہیں۔ مختلف خطوں میں دہشت گردوں کو ہتھیار اوراخلاقی اورسفارتی مدد فراہم کررہی ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ جنوب مشرقی ایتھوپیا میں شدت پسند مسلح جدوجہد کرنے والے گروپوں اور قبائلی سرداروں کی آپسی کشمکش کے لیے بھی حکمراں ابی احمدکی حکومت کی سیکورٹی فورسیز کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ جیسے پچھلے سال 2021میں دسمبر میں 14قبائلی لیڈروں کو بڑی سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیاگیا تھا۔ اس قتل وغارت گری کے لیے سرکاری انسانی حقوق ادارہ نے سرکاری عملہ پرانگلی اٹھائی اور بتایا کہ یہ کارروائی ایسی واردات کے رونما ہونے سے ایک روز قبل 11پولیس اہل کاروں کے قتل کے خلاف جوابی کارروائی ہے۔ جبکہ کچھ وارداتوں کے پس پشت او ایل اے کا ہاتھ بتایاجاتا ہے۔
اس طرح کے بھیانک واقعات ایتھوپیا میں عام ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے جب سے ابی احمد برسراقتدار آئے ہیں، منظم تشدد کی تین ہزار سے زائد وارداتیں ہوچکی ہیں جن سے 8ہزار سے زائد افراد کی جان جاچکی ہے۔ پورا ملک ایک جنگل بن گیا ہے۔ کس نے کس کو مارا، کس واردات کے پس پشت کون ہے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے۔ ناروے کا ادارہ Internal Displacement Monitoring Centre کا کہنا ہے کہ دسمبر 2020کے اواخر تک ایتھوپیا میں 5ملین افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 2018میں ابی احمد کے اقتدار میں آنے سے قبل ایتھوپیا میں تقریباً3دہائیوں تک تگرے پیوپلزلبریشن فرنٹ کی ہی حکومت رہی۔ ابی احمد کو جمہوریت، مختلف طبقات میں صلہ رحمی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کرنے کے لیے امن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ مگر اب ان پر الزام ہے کہ وہ دوسرے علیحدگی پسند گروپ جو کہ تگرے پیوپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کے مقابلے میں کھڑے ہیں، بطور خاص اوایل اے کو چھوٹ دے رہے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ تگرے میں انسانی فلاح و بہبود کے لیے جو اسباب غذائی امداد اور ادویات مہیا کرائی جارہی ہیں اس کو حکومت تگرے نہیں پہنچنے دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایتھوپیا کے دیگر علاقوں میں او ایل اے پر الزام ہے کہ اس نے ایک دیگر نسلی گروپ امہارا (Amhara)پر ظلم اور تشدد کا بازار گرم کررکھاہے۔ تاہم تصادم، نسلی گروپوں میں قتل عام روکنے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حال ہی میں تگرے کی ٹی پی ایل ایف اور او ایل اے تنظیموں کے درمیان فائربندی کی کوششوں سے کامیابی نہیں مل پائی۔او ایل اے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کے القاعدہ اور الشباب سے تعلقات ہیں اور اس گروپ کو پڑوسی ملک صومالیہ کے راستہ مدد مل رہی ہے۔ سرکاری افواج کا کہناہے کہ اس کو اسی محاذ پر بھی عالمی دہشت گردتنظیموں سے لوہالیناپڑ رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی مدد اور خارجی مداخلت کی وجہ سے حالات پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔
اس دوران ایتھوپیا اور پڑوسی ایرٹیریا کی حکومتوں نے مشترکہ طورپر تگرے لبریشن فرنٹ کے خلاف کارروائی کرکے اس تنازع کو نیا موڑ دے دیا ہے۔n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS