ریتارانی پالیوال
دنیا کو تباہ کرتی وبا نئی نئی شکلیں بدل کر حملہ کررہی ہے۔ شروعاتی دور میں اس کا قہر خوشحال ممالک پر ہوا اور زبردست جان و مال کے نقصان کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ بچاؤ کے پختہ انتظامات بھی کرلیے۔ ہمارے ملک میں بھی جیسے ہی کورونا نے دستک دی۔ بڑی تیزی اور سختی کے ساتھ اسے ہرانے کی کوششیں کی گئیں۔ کافی لوگوں نے زندگی کھوئی، لیکن جلدی ہی کورونا پر قابو پا لیا گیا۔ حالاں کہ اس پورے عمل میں غریب مہاجروں کو بے حد وحشت اور ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
کورونا جلد ملی اس جیت سے پیدا ہوئے انتہائی اعتماد کے سبب ہم ہندوستانی یہ جانی مانی کہاوت بھول گئے کہ بیماری اور دشمن کو کبھی کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ جس کورونا سلوک کو اپناکر ہم نے وبا کو ہرایا تھا، اسے خود ہی اٹھاکر طاق پر رکھ دیا۔ لیڈر، انتظامیہ، عوام سب بھول گئے کہ وبا ابھی گئی نہیں ہے۔ جب موقع ملے گا پھر حملہ کردے گی۔ معاشیات، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی سبھی طرح کی سرگرمیاں سب ایسے منعقد ہونے لگیں، سمجھو وبا نام کی مصیبت کو ہم نے ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن کردیا ہے۔ ٹیکہ کاری کے انتظام کی شروعات نے ہمارے اس حوصلہ کو مزید بلند کردیا۔ ہماری توجہ ملک میں صحت خدمات کی خامیوں کا پتا لگانے اور انہیں بہتر کرکے مضبوط بنانے کے بجائے دیگر کاموں پر مرکوز رہی۔
اس مرتبہ وبا نے کئی گنا طاقت سے حملہ بولا ہے۔ حالاں کہ گزشتہ برس جیسا آناًفاناً لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا گیا، کیوں کہ الیکشن، کمبھ، شادی-بیاہ، سیرسیاحت وغیرہ متعدد طرح کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ انہیں روکنا آسان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ مرتبہ کے لاک ڈاؤن کے برے نتائج سے متعلق حکومت کی خوب تنقید بھی ہوئی تھی۔ اس مرتبہ مرکز نے ریاستی حکومتوں کو اپنے یہاں کی حالت دیکھتے ہوئے انتظام کرنے کا ذمہ سونپ دیا تاکہ معیشت کو ایک دم جھٹکا نہ لگے۔ لیکن اس مرتبہ کورونا کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ دیکھتے دیکھتے سارا صحت نظام خستہ حال ہوگیا ہے۔ اچانک واپس آئی آفت نے بڑے سے بڑے شہروں کے بڑے بڑے اسپتالوں کی پول کھول دی۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہوئی ہے کہ وبا نے گاوؤں کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔ ٹیلی ویژن کھولتے ہی نظر آتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ زکام، بخار، کھانسی سے متاثر ہیں۔ ان کی کورونا کی جانچ کا مکمل انتظام نہیں ہے۔ لوگوں کو معلومات ہی نہیں تھیں کہ وہ کسی مہلک بیماری کے شکار ہیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ موسم تبدیل ہونے کی وجہ سے عام زکام کھانسی ہے، دو-چار دن میں ٹھیک ہوجائے گی۔ لیکن جب ایک کے بعد ایک گھروں میں اموات ہونے لگیں تو سمجھ میں آیا کہ وہ کسی شدید وبا کے چکرویو میں پھنس گئے ہیں۔ علاج کی چھوٹی موٹی جو بھی سہولت گاؤں میں دستیاب تھی، اس کے سہارے کورونا سے جنگ لڑتے ہوئے دیہی معاشرہ کی خبریں میڈیا میں آنے پر ریاستی انتظامیہ حرکت میں آئی۔ صحت اہلکاروں کی تھوڑی بہت ٹیموں نے گاؤں کی جانب رُخ کیا۔
ہمارے یہاں دیہی عوام اور شہری عوام کی زندگی کے مابین بہت بڑی دوری ہے۔ اسے سلسلہ وار طریقہ سے قائم رکھا گیا ہے۔ شہری آدمی دیہاتیوں کا اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال تو کرنا چاہتا ہے، کرتا بھی ہے، لیکن اسے اپنا نہیں تسلیم کرتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مزدور-محنت کش طبقہ کو گزشتہ برس اپنے ہی ملک میں بھوکے پیاسے ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر کیوں کرنا پڑتا؟
مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ گزشتہ سال-سواسال کے دوران گاؤں کے عوام کے لیے کیا انتظامات کیے گئے؟ صحت سہولت یا بیداری کی تشہیر کو لے کر کوئی خاطرخواہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ گزشتہ سال جب مہاجر مزدور بے پناہ اذیتیں برداشت کرتے ہوئے، جان کی بازی لگاکر گھر واپس پہنچے تب تو مقامی لوگوں کو انفیکشن سے بچانے کے لیے کئی جگہ گاؤں کے باہر رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ چوں کہ پہنچ وہی سکے تھے جو صحت مند تھے، اس لیے گاؤں بیماری سے بچے رہے۔ نومبر تک آتے آتے کورونا زوال پر تھا۔ تقریباً سب لوگ مطمئن ہوگئے تھے۔ وباؤں کی تاریخ اور ماہرین کی رائے سے کوئی بھی سبق لیے بغیر سمجھ بیٹھے کہ ہم نے کورونا کو ہرا دیا ہے۔ اس بات کی تیاری ہی نہیں کی گئی کہ اگر دوسری لہر آئی تو لوگوں کو کیسے بچایا جائے گا۔ اور اگر یہ گاوؤں میں پھیلی تو اس کو کیسے سنبھالا جائے گا۔
اب جب وبا گاوؤں میں تیزی سے پھیل رہی ہے، تب نہ تو بیماری کے علاج کا مکمل انتظام ہوپارہا ہے، نہ مہلوکین کی آخری رسومات کا۔ گنگا اپنے ساحلوں کی ریت میں دبی نعشوں کو سنبھال نہیں پارہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ گنگا کنارے رہنے والے گاؤں والے اپنے رشتہ داروں کی آخری رسومات ادا نہیں کرنا چاہتے۔ مگر ان میں سے بہت سے تو اتنے مفلس ہیں کہ رشتہ داروں کے علاج کے لیے ہی پیسہ کا انتظام نہیں کرپاتے، آخری رسومات کے لیے کہاں سے لائیں گے۔ چوں کہ مرنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا ہے تو معاملہ پولیس اور انتظامیہ کو سنبھالنا پڑرہا ہے۔ حالاں کہ وہ بھی جگہ جگہ غیرذمہ دارانہ سلوک کرتے نظر آرہے ہیں۔
گاوؤں میں طبی سہولت کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ وبا کی دوسری لہر آجانے کے باوجود گاوؤں میں صحت سہولتوں کے تئیں انتظامیہ کے سسٹم کے پوری طرح سے مایوس کن رویہ نے حالت کو مزید بدتر بنادیا ہے۔ دراصل گزشتہ کئی دہائیوں سے گاوؤں میں کوئی طبی سہولت دستیاب رہی ہی نہیں۔ آزادی کے بعد پچاس کی دہائی میں ہی گاوؤں میں سرکاری اسپتال تو بنائے گئے، مگر ڈاکٹر، ہیلتھ ورکر اور دواؤں کا ہمیشہ فقدان ہی رہا۔ دیہی تعلیمی اور صحت خدمات گزشتہ 70برسوں سے خستہ حال ہی رہی ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، مگر ایمانداری اور خوداعتمادی کی کمی اور سیاسی مفادات کے سبب ان بنیادی خدمات کو کارگر طریقہ سے بہتر نہیں کیا جاسکا۔ سرکاری خدمت میں تعینات ڈاکٹر یا اساتذہ گاوؤں میں جانے سے کتراتے ہیں۔ پرائیویٹ طبی سہولت کے نام پر گاؤں میں وہی ڈاکٹر دستیاب ہوتے ہیں جنہیں صلاحیت کی کمی میں شہر میں کوئی نہیں پوچھتا۔ نتیجتاً بیماری کا کوئی بھی بحران آنے پر گاؤں کے آدمی کو شہر کی جانب رُخ کرنا پڑتا ہے۔ اور شہر میں علاج کے لیے مریض کو وہی لے جاسکتا ہے جس کی جیب میں چار پیسے ہیں۔ غریب دیہی عوام تو ’گئودان‘ کے ہیرو کی طرح بھگوان بھروسے ہیں۔ آج بھی اسپتالوں، کمیونٹی ہیلتھ سینٹروں کی عمارتوں پر تالے لگے ہوئے مل جائیں گے۔ حال میں دہلی کے پاس گریٹر نوئیڈا کے جیور نامی مقام پر برسوں سے بند پڑے ایک کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کو کووڈ سینٹر بنانے کے لیے کھولا گیا۔ یہ ہیلتھ سینٹر 2011میں بنا تھا اور تبھی سے بند پڑا تھا۔ یہ حال جیور جیسی جگہ کا ہے جہاں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بننے جارہا ہے۔ باقی دیہی علاقوں میں ہیلتھ سینٹروں کی حالت کا خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دراصل ہمارے یہاں دیہی عوام اور شہری عوام کی زندگی کے مابین بہت بڑی دوری ہے۔ اسے سلسلہ وار طریقہ سے قائم رکھا گیا ہے۔ شہری آدمی دیہاتیوں کا اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال تو کرنا چاہتا ہے، کرتا بھی ہے، لیکن اسے اپنا نہیں تسلیم کرتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مزدور-محنت کش طبقہ کو گزشتہ برس اپنے ہی ملک میں بھوکے پیاسے ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر کیوں کرنا پڑتا؟ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے فائدے کے لیے دیہاتی شخص کا استعمال کرتی ہیں۔ جمہوری نظام میں گاوؤں کی شراکت داری ہے، لیکن اس کا حقیقی فائدہ سیاسی لیڈروں- کارکنان کو ہی ملتا ہے، نہ کہ عام دیہی عوام کو۔ مقامی ادارے تو بنے ہیں لیکن وہ بعض بارسوخ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے سوائے عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکے ہیں۔ علاج، روزگار یا تعلیم کا مناسب انتظام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج ضرورت ہے شہری اور دیہی زندگی کے درمیان ٹوٹے ہوئے پیار کے دھاگے کو دوبارہ جوڑنے کی، دیہی عوام کو وہ سب سہولتیں حقیقت میں(محض کاغذ پر نہیں) مہیا کرنے کی جن کے وہ حق دار ہیں اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے۔
(بشکریہ: جن ستّا)