شاہنوازاحمد صدیقی
دنیا بھر میں جمہوریت، جمہوری اقدار اور اظہاررائے کی آزادی کا نعرہ لگانے والے طاقتور مغربی ممالک اور ان کے عسکری اتحاد کس طرح مستحکم اور خوش حال ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے ہیں، تاریخ کے اوراق ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ عراق،افغانستان، شمالی مغربی افریقہ کے خوش حال ملک لیبیا میں ناٹو کی قیادت والے اتحاد نے بم برسا برسا کر ان ملکوں کو برباد کردیا ہے۔ لیبیامیںجہاں 2011سے آج تک نہ تو مستحکم حکومت قائم ہوسکی ہے اور نہ ہی کشت وخون کا دورتھماہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ایک زمانے میں جس ملک کی قیادت پورے براعظم کو ایک اکائی اور دھاگے میں پروناچاہتی تھی، اسی ملک میں دوردراز روس، ترکی، امریکہ جیسے بڑے بڑے ممالک اور حدتو یہ ہے کہ پڑوس کے چھوٹے چھوٹے خانہ جنگی اور قبائلی رقابتوں کے شکار ممالک بھی اپنی فوجیں اور بھاڑے کے ٹٹو اتار چکے ہیں۔ دنیا کی تمام اقوام کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ بھی یہاں کی خانہ جنگی اورقبائلی خلفشار اور خارجی مداخلت سے اس قدر تنگ آچکی ہے کہ کوئی بھی ذمہ دار سفارت کاریامصالحت کاروہاں پر ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چند روز قبل عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے اپیل کی ہے کہ لیبیا کی خانہ جنگی رکنی چاہیے۔ مگرتمام متحارب افواج کو لیبیا کے قدرتی وسائل پیٹرولیم اور قدرتی گیس سے رقومات مل رہی ہیں ایسے معدنیات کے ذخیرے رکھنے والے علاقے اورخطے کو چھوڑ کر جانا جہاں کی سرزمین سے سونا ابل رہا ہو بھلا کہاں کی دانش مندی ہوگی؟ بدقسمتی سے اس بھیانک صورت حال کا براہ راست شکار آج لیبیا کا عام شہری ہورہاہے۔ طرابلس کی گلیوں اور شاہراہوں سے میزائل اوربم دھماکوں کی خونچکاں آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ سڑکیں لہولہان ہیں۔ لیبیا کے دو متحارب گروپ جو دووزرائے اعظم کی قیادت میں برسرپیکار ہیں۔ اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔ حالات اس قدر پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ سیکورٹی کونسل میں اس مسئلہ پر بحث کے دوران اقوام متحدہ کے ایلچیوں نے ہاتھ کھڑے کرلیے ہیں۔
2011میں ’عرب بہاریہ‘ کے نام پر کھڑی کی گئی بغاوتوں میں مغربی طاقتیں، امریکہ، برطانیہ کی آنکھ کا کانٹابنے کرنل معمر قذافی کے اقتدار کوختم کرنے میں آخرکارکامیابی مل گئی تھی۔ امن کے دشمن اہل مغرب نے اپنا مقصد تو حاصل کر لیا مگر وہاں حالات حد سے زیادہ بے قابو ہونے لگے تو سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ برطانیہ فرانس وغیرہ نے جمہوریت کے قیام کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر ڈال کر پلہ جھاڑنے کی کوشش شروع کردی اور اقوام متحدہ نے ایک نمائندہ عبوری سرکار بنا تو دی مگر وہ سرکاربھی اسی خانہ جنگی اور خلفشار کی دلدل میں پھنستی چلی گئی تو اقوام متحدہ کے لیبیا کے نمائندہ نے معذرت کرلی کہ اس کو بخش دیاجائے، بعدازاں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے سینیگل کے ایک سفارت کار عبدالحئی بیتالی کے نام پر اتفاق تو کرلیا مگر لیبیا کے گروپوں میں ان کے نام پر اعتراض ہوا۔ بعدازاںعبوری سرکار کے سربراہ عبدالحمید دیباح کو کچھ اوردن تک عہدے پربرقرار رکھنے کی مہلت دے دی۔ مگر روس جس کے کئی جنگی ٹھکانے لیبیا میں ہیں اور روسی صدر کے قریبی دوست کے ویگنر گروپ بھی کافی سرگرم ہے، کو دیباح کے نام پر اعتراض ہے۔ خیال رہے کہ اس نام نہاد قومی اتحاد کی سرکار کا محدود علاقوں پر کنٹرول ہے۔ ملک کے مغربوں حصوں پر اس حکومت کا کنٹرول ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر جو کہ مشرقی لیبیا کے علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں ان کی حمایت کررہے ہیں۔
آج کے لیبیا میںاندرونی سیاسی اختلافات خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ قذافی مخالف احتجاجوں کے بعد اقتدار سے ہٹا دیے گئے تھے اور بعد میں ان کی دردناک موت کے مناظر پوری دنیا نے دیکھے۔
قذافی کی موت کے بعدمظاہروں کا ایک اوردورشروع ہوا اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ علاقائی رقابتوں میں اب بین الاقوامی اقوام بھی شامل ہوگئیں اور مختلف ملکوں کی فوج نے اپنے اپنے مفادات کے مطابق جنگجو گروپوں کو مدد فراہم کرنی شروع کردی۔ قطرجیساچھوٹا سا ملک اس خلفشار میں شامل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ترکی اور یوروپی ملک اٹلی نے بھی اقوام متحدہ کی حمایت والی عبوری سرکار کو حمایت دینی شروع کردی جب کہ دوسری جانب روس، مصر، یواے ای، سعودی عرب اور فرانس نے خلیفہ خفتر کی حکومت کو حمایت دینی شروع کردی۔
کرنل قذافی کی موت کے بعد لیبیا میں قبائلی اورعلاقائی رقابتیں منظرعام پر آنے لگیں۔ قبائلی شناخت کی جنگ مفادات کے ٹکراؤ میں بدل گئی ہیں۔ قذافی جس بادشاہ ادریس کو بے دخل کرکے 1969میں برسراقتدار آئے تھے، ادریس لیبیا کے مشرقی خطے Cyenaicaکے ہی حکمراں بنے تھے بعدمیں آہستہ آہستہ ان کو پورے موجودہ لیبیا پران کا قبضہ ہوگیا۔ کرنل قذافی نے ایک مستحکم ملک تو دیا مگر اتنے طویل دور تک اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ قبائلی رقابتیں اور علاقائی احساسات کو ختم نہیں کرپائے اور آج حشر سب کودکھائی دے رہاہے کہ اس قدر خوش حال ملک خانہ جنگی کی زد میں اس قدر آگیا ہے کہ عام شہری کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔
2014کی خانہ جنگی کے بعد ملک تقریباً دوحصوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔ ملک کی زیادہ تر افواج نے خود کو دو سربراہوں کے درمیان وفاداریوں میں تقسیم کردیاتھا۔ ایک سرکار جو کہ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ تھی اور دوسرے فریق کی عبوری حکومت جو لیبیائی عرب مسلح افواج (ایل اے اے ایف) تھی اوراس کے سربراہ مسلح افواج کے سربراہ تھے۔دونوں حکومتیں لگاتار کوشش کرتی رہیں کہ ان کے دائرہ کار میں اضافہ ہوجائے اور وہ زیادہ سے زیادہ علاقوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کرنے لگیں۔
2019میں جب اقوام متحدہ لیبیا پرکانفرنس کا موڈ بنارہی تھی جنرل حفتر نے پورے ملک پرکنٹرول کرنے کے لیے اچانک فوجی کارروائی تیز کردی۔ بعد میں 2020میں خانہ جنگی نے بہت بھیانک شکل اختیار کرلی اور آج کے حالات میں کوئی بھی فریق جیتتاہوانظر نہیں آرہاہے۔
لیبیا کے حالات کی خرابی اور بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لیبیا میں 20,000سے زائد غیرملکی فوجی تعینات ہیں اور ان غیرملکیوں نے زیادہ ترعمارتوں اداروں اورانتظامی ڈھانچوں پرقبضہ کررکھاہے۔
اقوام متحدہ جس پر اس بدنصیب ملک میں جمہوریت کے قیام کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی، 2021تک الیکشن منعقد کرانے تھے تاکہ تمام اداروں کو ایک متحدہ نمائندہ سرکار کے حوالے کردیاجائے مگر ایسے حالات میں کوئی منتخب یانمائندہ حکومت بن پائے گی، کہنا محال ہے۔ n