ابھرتا ہوا نوجوان شاعر:محمد مصطفیٰ غزالیؔ

0

اسلم آزاد شمسی
اردو زبان و ادب کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔اردو زبان ہمیشہ سے ہی شیریں رہی ہے۔اردو محبت واخوت کی زبان ہے تو گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار بھی ہے۔اس زبان میں وہ جادو ہے جو سامعین کو محظوظ کرتی ہے اور قاری کو دیوانہ بنادیتی ہے۔اردو کا شیریں پن ہی ہے جس کے باعث عالمی سطح پر اردو بولا،پڑھا اور لکھا جانے لگا ہے۔یہ زبان رفتہ رفتہ برصغیر میں ہندوپاک کے سرحد سے نکل کر عالمگیر سطح کی زبان بن چکی ہے،اور ان سب کے پیچھے اردو زبان وادب سے وابستہ لوگوں،شعراء اور ادباء کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔خسرو سے لے کر غالب،میر اور اقبال کے بعد موجودہ دور کے بے شمار اردو دوست حضرات کی خدمات کار فرماہے۔بے شمار ادباء اور شعراء نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس زبان کو سیراب کیا ہے۔موجودہ دور میں بھی کئی ایسے شعراء اور ادباء ہیں جو ملک وبیرون ملک کے مختلف خطوں سے اردو کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اسی ضمن میں صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر محمد مصطفیٰ غزالیؔکا نام بھی نہایت اہم ہے۔محمد مصطفیٰ غزالی ایڈوکیٹ کو جتنی گہری دلچسپی قوانین وآئین سے ہے اتنا ہی گہرا شغف شعر وسخن سے بھی ہے۔محمد مصطفیٰ غزالی کا تعلق صوبۂ بہار کی راجدھانی پٹنہ سے ہے۔ان کی ابتدائی وبنیادی تعلیم گھر پر والد ماجد عبد الحمید صاحب اور والدہ زیب النساء کے پاس ہوئی۔پھر محمڈن اینگوعربک سنیئر سکنڈری اسکول پٹنہ سیٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔بعد ازیں پٹنہ کالج،دربھنگہ ہائوس اور پٹنہ لاء کالج سے یکے بعد دیگرے ایل۔ایل ۔ایم(L.L.M.)تک کی ڈگری حاصل کی۔پڑھائی لکھائی میں دلچسپی ہونے کے سبب انہوں نے آگے بھی پڑھائی جاری رکھا اور مدراس سے انٹرنیشنل سیفٹی مینجمنٹ کورس ،محکمہ برائے فروغ انسانی وسائل سے کمپیوٹرکورس اور ڈپلومہ اِن اردو لینگوئج اینڈ لٹریچر کورس بھی مکمل کیا،گورنمنٹ ٹیچرس ٹریننگ کالج،مہندرو،پٹنہ سے ڈی۔ایل۔ایڈ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدر آباد سے بی ۔ایڈ کا کورس بھی مکمل کرلیا۔نیز پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری غیر مکمل ہے۔
اولاً میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں کوئی زبان داں یا ادیب نہیں ہوں۔ہاں تھوڑا بہت لکھ لیتا ہوں۔جسے میں اپنے لئے کافی سمجھتا ہوں اور جستجو کے ساتھ سیکھنے کی کوشش میں رہتا ہوں۔میری تحریر میرا ذاتی خیال ہوتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ محمد مصطفیٰ غزالیؔ شاعری کی دنیا میں نئے ضرور ہیں پر انہوں نے شاعری کی پگڈنڈیوں پر چلنا سیکھ لیا ہے۔شاعری کے رموزونکات سے واقفیت بھی ہوچکی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس وقت وہ عمدہ شاعری کررہے ہیں اور اس میں نکھار پیداکرنے کے لئے محنت بھی کررہے ہیں۔ان کی شاعری کی اردو حلقے میں کافی پذیرائی ہورہی ہے۔یہ دیگر بات ہے کہ انہیں شخص سے شخصیت بننے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے۔
محمد مصطفیٰ غزالی ؔکو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا اورشعر وشاعری و اردو زبان وادب سے محبت اسکول کے زمانے سے ہی ہوگئی تھی۔شعر وسخن کا شوق بھی طالب علمی کے زمانہ سے ہی رکھتے تھے لہذا اردو زبان وادب کا مطالعہ شروع کیا اور پھر انہوں نے خود کو ایک ابھرتے شاعر کے طور پر پیش کیا۔شاعر موصوف نے حمد ،نعت،مناجات،منقبت،غزل ،نظم،قطعہ ودیگر شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور بہترین اشعار تخلیق کئے ہیں۔
حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار دیکھیں:-
خدا نے ہر کسی کو اک نیا انداز بخشا ہے
کسی کو سوز بخشا ہے،کسی کو ساز بخشا ہے
عطا کرکے کسی کو رنگ و رونق،دلکشی ،شوخی
جمال و حسن کا بے مثل اک اعجاز بخشا ہے
گلوں کو رنگ و بو سے کس قدر شاداب رکھتا ہے
پرندوں کو عجب بال و پر پرواز بخشا ہے
فرشتوں کو ادائے بندگی سکھلائی ہے رب نے
مگر حوروں کو اس نے صورتِ شہناز بخشا ہے
وفا کا رنگ دنیا میں دیا عشاق کو جس نے
حسینوں کو اُسی نے دلبری کا ناز بخشا ہے
رضائے رب جسے چاہے عطا کردے نیا منصب
اسی نے ہر کسی کو ذلت و اعزاز بخشا ہے
کسی کو بے سہارا وہ کبھی کرتا نہیں ہرگز
ضرورت مند کو اس نے سدا دمساز بخشا ہے
وہی محفوظ رکھتا ہے چبھن سے خار کی لیکن
جسے گُل کی تمنا ہے اسے گلناز بخشا ہے
خیالی دیوتائوں پر کسی کو فخر ہے تو کیا ؟
غزالیؔ کو محمد مصطفیٰ ؐ پر ناز بخشا ہے
نعت رسول ؐ کے چند اشعار دیکھیں کہ ان کی نعتیہ شاعری کس قدر عمدہ ہے۔لکھتے ہیں:-
واقعی عشق نبیؐ میں جس کو جینا آگیا
ہاتھ اس کے دو جہاں کا ہر خزینہ آگیا
کی محمدؐ کی اطاعت جس کسی نے قلب سے
پاس عقبیٰ کا اسی کے سب دفینہ آگیا
نورِ حق سے دو جہاں کو جگمگانے کے لئے
رحمت ِ عالم ؐ کی صورت اک نگینہ آگیا
جب رسولِ پاکؐ آئے اس جہاں میں مومنو
اہلِ عالم کو دہانِ زخم سینا آگیا
٭٭٭
مری زندگانی ہو ایسے تمام
کہ بن کر رہوں میں نبیؐ کا غلام
پیمبر تو سارے ہوئے باوقار
مگر مصطفیٰؐ کا ہے اعلیٰ مقام
صداقت ، وفا اور وحدانیت
محمدؐ نے بخشے ہیں پیارے پیام
نبی ؐ نے سکھائی ہے طرز حیات
حیا ، صبر ، ایماں ، حلال و حرام
یہ اسمِ محمدؐ تو رحمت کا خزانہ ہے
اِس نورِ مبارک سے روشن یہ زمانہ ہے
واللہ محمدؐ سے ہیں دونوں جہاں قائم
یہ قول حقیقت ہے ، ہر گز نہ فسانہ ہے
اے شاہِ اممؐ سن لیں کچھ میری زبانی بھی
برسوں سے مرے لب پر جاری جو ترانہ ہے
اے کاش بُلا لیتے سرکارؐ مدینے میں
بس ایک یہی حسرت جینے کا بہانہ ہے
ان کی شاعری پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری کی زبان سادہ،سلیس اور عام فہم ہے۔ان کی شاعری میں فکری عنصر نمایاں ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعہ قوم و معاشرے میں نیک اور مثبت پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری میں ہر طرح کے موضوعات شامل ہیں۔وہ ہر بات کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔وہ جذباتی فطرت کے حامل انسان ہیں اور جذبات کا یہ پہلو ان کی شاعری میں مئوثر طور پر نظر آتا ہے۔
وہ اپنی شاعری میں ہندوستانی تہذیب،کلچر اور روایات کو بھی جگہ دیتے ہیں۔وہ ایک پُر امید مزاج کے مالک ہیں اور ان کی شاعری میں مستقبل کے خواب پنہاں ہیں۔اپنی شاعری میں وہ موجودہ کرب وکڑھن اور اضطراب کو پیش کرتے ہیں اور تابناک مستقبل کے خواہاں ہیں۔ان کے اشعار میں سیاسی ،سماجی،مذہبی اور فلسفیانہ شعار کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔
اپنی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
کب میرؔ یا غالبؔ ہوں میں
کس داد کا طالب ہوں میں
ہاں شاعری کا ذوق ہے
جس کی طرف راغب ہوں میں
چند اشعار دیکھیں:-
زندگی کی اہمیت پوچھو مریض ِ مرگ سے
مرغِ بسمل یا گرے شاخِ شجر کے برگ سے
درحقیقت زندگانی کا مزا لیتا ہے وہ
جو کہ ہر اک سانس ِ آئندہ کو سمجھے آخری
خوف ہو مجھ کو بھلا کیوںفوت کا
جب مزا چھکنا ہے سب کو موت کا
٭٭٭
سدا راہِ وفا میں ایک خفیہ کیمرا جیسا
زمانہ اہلِ الفت کے لئے جاسوس ہوتا ہے
بگڑسکتا نہیں کچھ بھی کسی طوفان سے ہرگز
چراغوں کا محافظ جب تلک فانوس ہوتا ہے
انہوں نے اپنی شاعری میں اردو کی زبوں حالی کو جگہ دی ہے اور اردو کی روٹی کھانے والوں کی اردو کے تئیں بے رخی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
اک مدت سے جو اردو کی کھاتے ہیں
ان کے بچے انگلش مکتب جاتے ہیں
ہیں اردو کے عہدے پر فائز لیکن
ہونٹوں پر انگریزی جملے لاتے ہیں
محمد مصطفیٰ غزالیؔ کی شاعری میں احتجاجی عنصر بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔گذشتہ دوتین سال میں ملک وبیرون ملک کے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری میں شامل کیا ہے اور خوب عمدہ اشعار تحریر کیا ہے۔انہوں نے اپنے قلم کے ذریعہ نہ صرف اپنی قوم کی صدا بلند کی ہے بلکہ عوام الناس کو گہری نیند سے بیدار کرنے کی پُرزور کوشش کی ہے۔انہوں نے کورونا عہد، کورونا عہد کی عید،طلاقِ ثلاثہ بلِ،سی۔اے۔اے،این آر سی ودیگر ملک مخالف قوانین کی کُھل کر مذمت کی ہے اور اختلاف رائے ظاہر کیا ہے۔چند اشعار دیکھیں۔
فضااچھی نہیں لگتی دیارِ ہند میں اب تو
جسے دیکھو سیاست کررہا ہے آج نفرت کی
غزالی کہہ رہا ہے جو ذرا سوچو مرے پیارو
ہمارے ملک کو کتنی ضرورت ہے محبت کی
٭٭٭
سنو ائے رہنمائے ملک میری بھی گزارش تم
اجی چھوڑو سیاست نفرت و بغض و عداوت کی
بہا دیں ہم ہوا پھر سے دیارِ ہند میں ایسی
بنے تصویرِ ہندوستاں غزالیؔ رشکِ جنت سی
٭٭٭
چند احتجاجی اشعار ملاحظہ فرمائیں:-
یہ کیا صورت ہمارے دیس کی سرکار کر ڈالا
حوالے نفرتوں کے یہ حسیں گلزار کر ڈالا
عجب قانون بنوا کر یہاں بنیادِ مذہب پر
محل آئین کا کیوں آپ نے مسمار کر ڈالا
عدم جمہوریت کی ہر طرف حالات پیدا کر
دیار ہند کے ماحول کو بیکار کر ڈالا
سبھی مذہب کے پیروکار رہتے تھے محبت سے
ہمارے درمیاں کیوں کر کھڑی دیوار کر ڈالا
٭٭٭
پشیماں ہو کے کہتی ہے عوام ہند یہ ساری
بنا کرکے تجھے رہبر خطا ہم سے ہوئی بھاری
تعصب سے بھرا قانون واپس لیجئے صاحب
نہیں دستور سے منظور ہم کو ایسی غداری
وطن سے خیر خواہی کا ڈرامہ بند ہو ورنہ
کہیں بھاری نہ پڑجائے تجھی پر یہ اداکاری
سیاست کے لبادے میں حماقت کب تلک آخر؟
رعایا سب سمجھتی ہے تری ہر اک ریاکاری
سند حُبِ وطن کی بانٹنے والو! ذرا کہہ دو
غزالیؔ کب تلک ثابت کرے اپنی وفا داری
٭٭٭
وعدوں پہ تیرے کس کو ہو اعتبار کب تک
اچھے دنوں کا آخر ہو انتظار کب تک
ظلم وستم تو کرلے جی بھر کے اے ستم گر
ظالم کے ہاتھ رہتا ہے اقتدار کب تک
مانا کہ ہاتھ میں ہے تیرے ابھی حکومت
لیکن رہے گا تجھ کو یہ اختیار کب تک
امن و سکوں کے دشمن ، خود سوچ کر بتائو
پھیلا رہے گا آخر یہ انتشار کب تک
اٹھو مرے عزیزو! تختہ پلٹ کے رکھ دو
امدادِ غیب پر ہو اب انحصار کب تک
٭٭٭
کبھی تم چین جاتے ہو ، کبھی جاپان جاتے ہو
کبھی جاتے ہو امریکہ ، کبھی ایران جاتے ہو
خزانہ کردیا خالی فقط تفریح کی خاطر
غضب انسان ہو لے کر عجب پہچان جاتے ہو
کیا وعدہ! مگر وعدہ کبھی پورا کیا تم نے؟
کہ اچھے دن کے بدلے چھوڑ کر ویران جا تے ہو
نیا اک فارمولا آزماتے ہو جو رہ رہ کر
عجب انداز سے پیدا کئے طوفان جاتے ہو
قرینہ حکمرانی کا نہیں معلوم ہے جس کو
غزالیؔ ایسے نادانوں کو تم پہچان جاتے ہو
٭٭٭
محمد مصطفیٰ غزالیؔ نے کورونا عہد کی عید کی نہایت ہی بہترین منظر کشی اپنے کلام کے ذریعہ کی ہے۔اشعار دیکھیں
عجب ماحول میں اِس بار کیسی عید آئی ہے
کہ ہر انساں کے ذہن و دل پہ اک دہشت سی چھائی ہے
ہزاروں لوگ اپنی جاں گنوا بیٹھے وبا میں جب
تبھی اندوہ گیں ساعت پیامِ جشن لائی ہے
خدا ناراض ہم سے ہوگیا ہے کس قدر سوچو
ہوئی ہم سے خطا کیسی سزا جس کی یہ پائی ہے
عبادت سے رہے محروم ہم ماہِ مقدس میں
غضب ہے یہ خدا کا یا قیامت ہم نے ڈھائی ہے
نئے کپڑے بھلا کیسے کروں میں زیبِ تن کہئے
جہاں میں ہر طرف جبکہ وبائے مرگ چھائی ہے
معاشی طور پر کمزور ہیں سب لاک ڈائون میں
جہاں مایوس ہیں تاجر ، وہیں مغموم نائی ہے
منائوں عید کی خوشیاں بھلا میں کس طرح جبکہ
غموں میں مبتلا ، رنج و الم میں میرا بھائی ہے
استاد کی عظمت و برتری اور ان کی خدمات کا قائل زمانہ رہا ہے۔استاد ہماری زندگی کا معمار ہوتا ہے۔استاد کی ابدی حیثیت ہے اور اس کی تعظیم ہمارے لئے لازم ہے۔اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
اگر استاد کی عزت نہیں ہوگی زمانے میں
کبھی شاگرد کا معیار اونچا ہو نہیں سکتا
فقط اونچی اڑانوں کو ترقی ہم نہیں کہتے
بِنا اقدار کے کردار اونچا ہو نہیں سکتا
٭٭٭
معلم کے مقام و مرتبہ سے گر رہے غافل
تو پھر تعلیم کا معیار اونچا ہو نہیں سکتا
ترقی کے منازل پر زمانہ لاکھ بھی پہنچے
مگر انسان کا کردار اونچا ہو نہیں سکتا
٭٭٭
محمد مصطفیٰ غزالیؔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا یہ وصف ان کی شاعری میں خوب نظر آتا ہے انہوں نے مختلف اصنافِ سخن پر بہترین طبع آزمائی کی ہے۔ان کی تحریر کردہ حمد،نعت،قطعات کے ساتھ ساتھ نظم اور غزلیہ شاعری بھی بے حد عمدہ ہے۔وہ مختلف سماجی کارکنان،فلمی ہستیوں،گلوکار،اہل قلم حضرات،سیاسی شعور رکھنے والے لوگ اور شعراء وادباء پر بھی کُھل کر اظہارِ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔لہذا ایک اہل ِ قلم کے لئے لکھتے ہیں کہ:-
غضب کا فن خدا نے آپ کو بخشا مرے ہمدم
کروں تعریف میں جتنی لگے مجھ کو بہت ہی کم
اضافہ در اضافہ آپ کے علم و ہنر میں ہو
غزالی کی دعا رکھے خدا خوش آپ کو ہردم
محمد مصطفیٰ غزالیؔ کے قطعات کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:-
یہ مسلکی تصادم اے کاش ختم بھی ہو
رب عظیم سن لے یہ التجا ہماری
اللہ متحد کر اک بار مسلموں کو
تیرے حضور میں ہے اتنی دعا ہماری
٭٭٭
لیجئے کچھ کام اپنی عقل سے
دوسروں کی بات پر مت جائیے
ہے حقیقت روزِ روشن کی طرح
صرف اندھیری رات پر مت جائیے
٭٭٭
بات حق کی ہم نے کی تو بے سہارے ہوگئے
بول کرکے جھوٹ وہ سب کے دلارے ہوگئے
صاف گوئی کی غزالیؔ یوں سزا ہم کو ملی
دوست تھے جتنے سبھی دشمن ہمارے ہوگئے
وفا کی راہ پر چلنا مقدر میں نہیں تیرے
خدا نے یار تجھ کو یہ فضیلت ہی نہیں بخشی
غزالی کی طرح لذت وفا کے درد میں پائے
حقیقت میں تجھے ایسی طبیعت ہی نہیں بخشی
٭٭٭
غزالیؔ صاحب عید کے تعلق سے فرماتے ہیں۔
مبارک ہوں سبھی کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں
صدا آئی مرے دل سے یہی بے ساختہ یارو
منائو تم خوشی لیکن غریبوں کو نہیں بھولو
غزالیؔ دے رہا ہے پاسِ دیں کا واسطہ یارو
٭٭٭
خدا کا شکر ہے بخشا ہمیں پھر سے حسیں موقع
تبسم کا ، مسرت کا ، خوشی کا، شادمانی کا
منائیں عید کی خوشیاں،سبھی سب سے گلے مل کر
غزالیؔ ہے دعا گو آپ سب کی کامرانی کا
٭٭٭
ہندوستان کے عظیم گلو کار شہنشاہ ترنم محمد رفیع کے یوم وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خدائے پاک نے بخشا حسیں انداز کا تحفہ
بڑا بے مثل تھا بے شک لبِ اعجاز کا تحفہ
مچلتا ہے سبھی کا دل ترے نغمات کو سن کر
مِلا رب سے تجھے یوں دلنشیں آواز کا تحفہ
٭٭٭
مرے دل کو لُبھاتا ہے تری آواز کا جادو
کہ جس آواز پر پھیکا پڑا ہر ساز کا جادو
بہت ہی دلنشیں تیرے سبھی نغمات ہیں بے شک
دِلوں پر نقش ہے جن کے حسیں انداز کا جادو
محمد مصطفیٰ غزالیؔ کی شاعری نہ صرف رفتہ رفتہ وسیع ہورہی ہے بلکہ ان کی شاعری میں دھار بھی پیدا ہورہی ہے۔ان کی زندگی اور شاعری کا مطالعہ کرنے سے معلومات نکل کرسامنے آتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام ترپہلو ئوںکا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کی مکمل معلومات دریافت کرتے ہیں۔اپنی نظم ’’میری ماں میری جاں ‘‘ میں ماں کی عظمت کو یوں بیان کرتے ہیں۔
ماں کی عظمت کا تجھے انداز ہے
ماں کی ہستی میں چھپا وہ راز ہے
جس سے قائم ہے وجودِ من وتو
ہے ترانہ زندگی ، ماں ساز ہے
ماں کے قدموں کے تلے جنت کیا
رب نے بخشا اس کو یہ اعزاز ہے
پوچھ میرے دل سے ماں کا مرتبہ
رتبۂ ماں تو بہت ممتاز ہے
اِسی طرح اپنی نظم ’’عبد الحمید صاحب میںمرحوم عبد الحمید صاحب کے اوصاف کو یوں بیان کرتے ہیں:-
انسانیت کے پیکر عبدالحمید صاحب
روحانیت کے رہبر عبدالحمید صاحب
ترغیب تھی یہ ان کی بس اک خدا کو مانو
وحدانیت کے خوگر عبدالحمید صاحب
شاداب ہوگئے وہ جو بھی قریب آئے
کب چھوڑتے تھے بنجر عبد المجید صاحب
تھے بے مثال والد تو لاجواب بھائی
زیب انساء کے شوہر عبدالحمید صاحب
محمد مصطفیٰ غزالیؔ کے کلام ملک کے تقریباًتمام تر اردو اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔جن میں روز نامہ پندار،قومی تنظیم،تاثیر،منصف،آگ،قومی صحافت،کشمیر عظمیٰ،اڑان، لازوال ،ہمارا سماج اور نیا نظریہ وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ مختلف رسائل وجرائد میں بھی ان کے کلام کی اشاعت ہوچکی ہے۔جن میں ملک وبیرون ملک کے چند رسالے کچھ اس طرح سے ہیں۔ماہنامہ گوہر نایاب،ماہنامہ اردو ڈائجسٹ،(اسپین)،ماہنامہ زبان وادب ،(بہار اردو اکیڈمی) ودیگر رسالوں میں بھی بکثرت شائع ہوتے رہتے ہیں۔
محمد مصطفیٰ غزالی ؔ کو شعراء وادباء کے حیات و خدمات سے گہری دلچسپی ہے اور اکثر ان پر کچھ کلام کہتے رہتے ہیں۔
اردو کے مشہور و معروف شاعر رمز عظیم آبادی کے بارے میں یوں لکھتے ہیں۔
عظیم آباد کی دھرتی پہ اک شاعر ہوا ایسا
دبستان عظیم آباد کا جو راہبر نکلا
مگر افسوس اس کی قدر ہم سے ہو نہیں پائی
قدم جس کا ہمیشہ سنگِ میلِ رہگزر نکلا
٭٭٭
واقفیت جس کے علم وفن کی رکھتا ہے سماج
جس کے فکر وفن میں شامل شاعری شاہیں مزاج
اے غزالیؔ رمز کی رفعت بیاں سے ہے فزوں
جس کی عظمت لے رہی ہے اہل ِ عالم سے خراج
اسی طرح شہر عظیم آباد کے معروف شاعررشید عارف صاحب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
با ذوق شخصیت تھی وہ اک میرے شہر میں
شعر و سخن سے جس کو کہ گہرا لگائو تھا
روشن تھی جس کی ذات سے قندیلِ شاعری
بزم سخن میں اس کا بہت اونچا بھائو تھا
٭٭٭
گلستان سخن کے ایک نادر پھول تھے عارف
زبان وفن کی خدمت میں بہت مشغول تھے عارف
سخنور تو زمانے میں غزالی کم نہیں لیکن
جو سچ پوچھو تو لوگوں میں بہت مقبول تھے عارف
محمد مصطفیٰ غزالی کی غزلیہ شاعری میں کافی عمدہ،بہترین اور قابل ستائش ہے۔موصوف کے غزلیات میں رومانیت کے ساتھ ساتھ سماج کے مختلف گرد و اطراف میں پھیلے مختلف موضوعات کی بہترین عکاسی وترجمانی بھی ہے۔
ان کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:-
عاشقی کوہِ گراں سے کم نہیں
ہر کسی میں عاشقی کا دم نہیں
منزلِ مقصود پانے کے لئے
جان گر جائے تو جائے غم نہیں
رو رہا ہے دل کسی کی یاد میں
آنکھ میری بے سبب تو نم نہیں
درد کی دولت عطا کی آپ نے
آپ کی مجھ پر عنایت کم نہیں
جانتا ہوں میں تمہارا حال ِ دل
گو کہ میرے پاس جامِ جم نہیں
٭٭٭
جدائی کا ہر اک لمحہ بڑا منحوس ہوتا ہے
مگر یہ کم نہیں وہ پاس ہی محسوس ہوتا ہے
وفا کے نام پر سب کچھ لٹا دیتا ہے اک عاشق
مگر اس راہ میں معشوق کچھ کنجوس ہوتا ہے
جہاں بھی ہواُسے محسوس ہوتی ہے عجب فرحت
لباسِ عشق میں جو شخص بھی ملبو س ہوتا ہے
گزرتی کیا ہے مجھ پر کیا بتائوں تم کو اے جاناں
تمہاری بے رخی سے دل بڑا مایوس ہوتا ہے
پرستارِ جمالِ یار کیوں کر ہو نہیں کوئی
دلِ عاشق ادائے حسن سے مانوس ہوتا ہے
٭٭٭
حال پوچھتے کیا ہو مجھ سے میرے دلبر کا
پھر مزاج برہم ہے آج اُس ستمگر کا
منحرف بھلا کیسے میں رہوں محبت سے
ہے قبول جب مجھ کو حکم ربِ اکبر کا
موت زندگانی کی اک حسین منزل ہے
زندگی حقیقت میں فلسفہ ہے دم بھر کا
جب جہان سے اٹھا دونوں ہاتھ خالی تھے
ایک درس عبرت ہے واقعہ سکندر کا
یہ بتارہوں آخر کب تلک تذبذب میں
کیوں سنا نہیں دیتا فیصلہ مقدر کا
تیری تلاش میں ہے شاید یہ میری ہستی
ملنے کو تجھ سے دلبر اب روح تک ترستی
اپنا بنا کے مجھ پر احسان اب تو کردے
اجڑی ہوئی ہے تجھ بن دل کی مری یہ بستی
ایسی ادا سے مجھ کو اک بار دیکھ لے تو
چھا جائے جس سے مجھ پر تاعمر کیف ومستی
میرے قریب آکر دل میں مرے سماجا
باہوں میں اپنی لے لے چھائی ہے مجھ پہ مستی
کہنے لگا وہ مجھ سے کل نیم شب مسافر
کہ چاہتوں میں ہر گز ممکن نہیں ہے پستی
المختصر یہ کہ محمد مصطفیٰ غزالی کی شاعری کا مطالعہ کرنے پر گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے روایتی شاعری سے علیحدہ راستہ اختار کیا ہے۔ان کی شاعری میں زمانہ ٔ حال سے وابستگی اور مستقبل کے روشن خواب چھپے ہیں۔وہ اپنی شاعری میں حسن وعشق اور گل وبلبل کے مقابلے حُبِ وطن، فکر قوم وملت کے ساتھ ساتھ سیاسی ،سماجی اور معاشرتی زوال کی فکر اور دیگر موضوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔گویا کہ وہ ادب برائے معاشرہ یا ادب برائے قوم وملت کے نظریہ کے حامی ہیں۔
موصوف نے اپنی شاعری کو مفاد عامہ اور مفادِ قوم کا رنگ دینے کی اچھی کوشش کی ہے۔ان کی شاعری میں مقاصد پنہاں ہوتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ان کاکلام لائق مطالعہ ہوتا ہے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک بہترین ابھرتے ہوئے شاعر ہیں اور مسقتبل میں انکی تخلیقات اردو زبان وادب کے لئے بیش قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS