محمد فاروق اعظمی
معاشرہ پر میڈیا کے اثرات کے حوالے سے جب بھی گفتگو ہوتی ہے زیادہ تر اس کے روشن پہلوکا ہی احاطہ کیاجاتا ہے۔ بالخصوص ہر گھر میں رسائی پالینے والے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو نسل انسان کی تہذیب اورشعور و آگہی کے فروغ کا ضامن سمجھاجا نے لگا ہے لیکن اس کے دوسرے پہلو پر لوگوں کی نگاہیں کم ہی پڑتی ہیں۔آج کے معاشرہ میں بڑھتی نفرت، عداوت اور ایک دوسرے کے خلاف پروان چڑھتے بغض و عناد کا سب سے بڑا سبب یہ میڈیا ہی بنا ہوا ہے۔ ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو ختم کرکے معاشرہ کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کا سہرا بھی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہی سر جاتا ہے۔گزشتہ چند برسوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ ایک فریق بن کر نفرت انگیز مہم چلارہا ہے۔ معاملہ شادی، طلاق کا ہو یا تعددازواج کی بات ہو، بڑھتی آبادی کا مسئلہ زیر بحث ہو یا کورونا وائرس کی ترسیل روکے جانے کی مہم کیوںنہ درپیش ہو، ان سب معاملات میں میڈیا یک طرفہ طور پر مسلمانوں کو ہدف بناکر ان کے خلاف معاشرہ میں نفرت پھیلانے کا کام کررہا ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں کوئی بھی واقعہ پیش آتاہو، اس کا تعلق مسلمانوں سے جوڑ کر انہیں بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔ سعودی عرب سے تیل کی ترسیل میں کمی ہو تو ہندوستان کے مسلمانوں پر آفت، ترکی کے طیب اردگان مسلمانوں کے اتحاد کی بات کریں تو ہندوستان کے مسلمانوں میں غداری کے جراثیم نظر آنے لگتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی تبدیلی کیلئے بھی ہندوستان کے مسلمانوں پر نشانہ لگایاجانے لگا ہے۔ ہندوستان کی ٹیلی ویژن نشریات 24گھنٹے افغانستان، طالبان، مسلمان اور دہشت گردی کے ارد گرد گھوم رہی ہیں اور ہرخبر اور تجزیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ افغانستان میں تبدیلی کے بعد ایک طرح سے ٹیلی ویژن چینل ملک میں مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کرنے لگے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو بڑھاوا دینے کیلئے ایسی تصاویرا ور ویڈیو دکھائی جارہی ہیں جن میں مسلمان خون آلو د تلوار لیے ہوئے نظرآتے ہیں۔خبروں، تصاویر، ویڈیو اور فیچرس کے ساتھ ساتھ روزانہ شام کے وقت ٹیلی ویژن پر افغانستان کے موضوع پر ہی مذاکرات اور مباحث منعقد کیے جارہے ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان مذاکروں میں ایسے افراد کو شامل کیا جا رہا ہے جنہیں خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی روابط کی بابت کوئی جانکاری نہیں ہوتی ہے۔ یہ افراد نہ صرف بڑھ چڑھ کر ان مذاکروں میں حصہ لیتے ہیں بلکہ افغانستان کے واقعہ سے ہندوستانی مسلمانوںکا تعلق ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔
ملک کـی جمہوریت، گنگا جمنـی تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومـی اتحاد و ملکی سالمیت کا تقاضا ہے کہ میڈیا کی اس افتراپردازی اور ملک دشمنی کو جلد از جلد ختم کیا جائے، ورنہ وہ دن دور نہیں ہے جب ہندوستان کے ہر شخص کی رگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دشمنی کا زہر دوڑنے لگے گا اور ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا پر ہونے والی جنگ سڑکوں پر آجائے گی۔ یہ ایسی جنگ ہوگی جس میں جیت کسی کی بھی ہو ہار بہرحال ہندوستان کی ہوگی۔
طرفہ تماشا تو یہ بھی ہے کہ حکومت نے اب تک طالبان کی مخالفت و مذمت میں ایک لفظ نہیں بو لا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ہندوستان کی پالیسی واضح کی ہے۔ سلامتی کونسل میںبھی حالیہ دنوں ہوئے اجلاس میں ہندوستان نے طالبا ن کے خلاف کوئی بات نہیں کہی ہے۔اس کے برعکس و زارت خارجہ کی جانب سے مختلف طریقوں سے طالبا ن سے براہ راست یا بالواسطہ بات چیت بھی ہورہی ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے سلامتی کونسل کی جانب سے افغانستان پر جو بیان جاری کیا ہے، اس میں سے طالبان کا حوالہ ہٹادیا گیا ہے۔ 16اگست کو سلامتی کونسل نے اپنے بیان میں باقاعدہ طالبان کا نام لیاتھا لیکن 27اگست 2021کو دوبارہ جاری ہونے والے بیان سے طالبان کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی سربراہی ابھی ایک مہینہ کیلئے ہندوستان کے پاس ہے۔اس کے باوجود طالبان کا نام ہٹائے جانے پر اعتراض تو کجا ہندوستان نے باقاعدہ اس پر توثیقی دستخط بھی کیے ہیں۔
بین الاقوامی اور حکومتی سطح پر ہندوستان کا یہ رویہ اندرون ملک میڈیا کے رویہ کے بالکل برخلاف ہے۔لیکن حکومت نہ صرف اس پر خاموش ہے بلکہ میڈیا کے اس رویہ کو حکمراں جماعت کے رہنما اور ترجمان ہوا بھی دے رہے ہیں۔ اس سے یہی لگ رہاہے کہ میڈیا کے ساتھ مل کرحکمراں جماعت ا وراس کے رہنما افغانستان میں تبدیلی اور طالبان کی آمد کو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلامو فوبیا پھیلانے کیلئے انتہائی بے غیرتی کے ساتھ استعمال کررہے ہیں۔ حکمراں جماعت کے آلہ کار کی حیثیت سے الیکٹرانک میڈیا ان کایہ مقصد پورا کررہاہے۔
ادھر سوشل میڈیا پر ہی یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔مختلف طرح کی ویب سائٹس، بلاگ اور انفرادی سطح پراستعمال کیے جانے والے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، وہاٹس ایپ وغیرہ میں بھی بعینہٖ یہی رویہ نظر آرہاہے۔ افغانستان پر لکھے جانے والے ہر کالم، خبرا ور جائزہ کی تان ہندوستان کے مسلمانوں پر ٹوٹ رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہریلے مواد سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور زہر اگلنے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔
میڈیا کایہ وہ تاریک اور شرم ناک کردار ہے جس پر بہت کم گفتگو ہو تی ہے۔ اپنے رویہ اور رجحان کی وجہ سے یہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا عوام کی بہتری کے بجائے ایک بہت بڑ ا خطرہ بن گیا ہے۔ ملک کی جمہوریت، گنگاجمنی تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد و ملکی سالمیت کا تقاضا ہے کہ میڈیاکی اس افتراپردازی اور ملک دشمنی کو جلد از جلد ختم کیاجائے، ورنہ وہ دن دور نہیں ہے جب ہندوستان کے ہر شخص کی رگوں میںایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دشمنی کا زہر دوڑنے لگے گااور ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا پر ہونے والی جنگ سڑکوں پر آجائے گی۔یہ ایسی جنگ ہوگی جس میںجیت کسی کی بھی ہو ہار بہرحال ہندوستان کی ہوگی۔