انتخابی بانڈ اسکیم میں مرکز کی تازہ ترین ترمیم کو مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مغربی بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے الیکشن کمیشن کی خاموشی پرسوالات اٹھائے ہیں۔بتادیں کہ مرکزی وزارت خزانہ نے 7 نومبر کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی انتخابات کے سال میں بانڈز کی فروخت کیلئے 15 دن کا اضافی وقت دینے کیلئے ترمیم کو منظوری دی گئی ہے۔اس کے مطابق اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو 9نومبر سے 15 نومبر تک اپنی 29 مجاز شاخوں کے ذریعے انتخابی بانڈ جاری کرنے اور ان کو کیش کرنے کا اختیار دیا ہے۔
محترمہ مہوا موئترا کا کہنا ہے کہ یہ قدم ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات کیلئے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو زیادہ سے زیادہ گم نام عطیات کی سہولت فراہم کرنے کی غرض سے اٹھایاگیا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد ہی انتخابی بانڈ اسکیم 2018 میں ترمیم کی گئی ہے۔ ادھر سابق الیکشن کمشنر ٹی ایس کرشنا مورتی اور سابق مرکزی سکریٹری برائے معاشی امور ای اے ایس سرما نے بھی اسے غیر منصفانہ قدم بتاتے ہوئے الیکٹورل بانڈز پر ہی پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
مہواموئترا، ایس سرما اور ٹی ایس کرشنامورتی کے یہ سوالات اور اعتراضات در اصل ہر اس ہندوستانی کے ذہن میں ہیں جو منصفانہ انتخابات اورشفاف انتخابی فنڈنگ پر یقین رکھتا ہے۔ سال 2017 میں مرکزی حکومت نے اسے متعارف کرایاتھا اوراس کا نفاذ 2018 سے شروع ہوا۔اس اسکیم کے تحت سال کے 4مہینوں جنوری، اپریل، جولائی اور اکتوبرکے پہلے دس دنوں کیلئے سال میں چار بار انتخابی بانڈ خریدنے کا اصول طے کیا گیا تھا۔ عام آدمی سے لے کر بڑے صنعت کار اور کاروباری گھرانے یا کمپنیاں اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے انتخابی بانڈ خرید سکتی ہیں اورا نہیں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو چندے کی صورت میں دیتی ہیں۔حکومت کا استدلال ہے کہ اس سے انتخابی فنڈنگ میں شفافیت کو فروغ ملے گا اور لوگ سیاسی جماعتوں کے دباؤ سے آزاد رہیں گے۔ نیز یہ اسکیم ’کیش لیس- ڈیجیٹل معیشت ‘ کی طرف بڑھنے والے ملک میں ’انتخابی اصلاحات‘ کا بھی نقیب ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسکیم اپنے بنیادی خیال کے بالکل برعکس ثابت ہوئی ہے۔اس سے قبل سیاسی جماعتوں کو کسی فرد یا صنعتی گھرانے کی جانب سے جو بھی عطیات دیے جاتے تھے، اس کا انکشاف کرنا پڑتا تھا اور سیاسی جماعتوں کو یہ بھی بتانا پڑتا تھا کہ انہوں نے کس سے کتنا عطیہ وصول کیا۔ لیکن مودی حکومت کی انتخابی بانڈ اسکیم میں بانڈ کے خریدار کی شناخت جاری نہیں کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ووٹر یہ نہیں جان سکیں گے کہ کس شخص،کمپنی یا تنظیم نے کس پارٹی کو اور کس حد تک فنڈز فراہم کیے ہیں۔بانڈ چونکہ سرکاری بینک کے ذریعہ فروخت کیے جاتے ہیں، اس لیے اس امکان کو بھی ردنہیںکیاجاسکتا ہے کہ حکومت اس بات کا پتہ لگا سکتی ہے کہ اس کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو کون فنڈ فراہم کر رہا ہے۔نتیجے کے طور پر یہ عمل صرف اس وقت کی حکومت کو دولت بٹورنے کی اجازت دیتا ہے اور حکمراں جماعت کو ناجائز فائدہ پہنچاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے ہی یہ تنازعات کے گھیرے میں ہے۔دو غیر سرکاری تنظیموں ’کامن کاز‘ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر) نے اس اسکیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ اسکیم ’جمہوریت کو مسخ کر رہی ہے‘۔اس معاملہ کی اگلی سماعت6دسمبر کو ہونی ہے لیکن اس سے پہلے ہی مرکزی حکومت نے اس میں ایک نئی ترمیم کرڈالی اور وہ بھی انتخابی ایام میںجو ہماچل پردیش اور گجرات میں مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہیں۔ یہ فیصلہ حکومت کی بدنیتی کا کھلا مظہر ہے اورا س سے یہ بھی صاف ظاہر ہورہاہے کہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ہی یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔مہواموئترا، ٹی ایس کرشنامورتی اور ای اے ایس سرما کے سوالات اور اعتراضات کا حکومت کیاجواب دے گی یہ توظاہر ہے لیکن اس معاملہ میںالیکشن کمیشن کی خاموشی بھی مجرمانہ غفلت اور صاف شفاف بدعنوانی سے پاک انتخابات کے تئیں اس کی سرد مہری کا ثبوت ہے۔
[email protected]
انتخابی بانڈ:حکومت کی بدنیتی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS