انتخابِ امیرِشریعت:سو برس بعد امارتِ شرعیہ نے کیا کھویا؟ کیا پایا(۲)؟

0
Image: Qindeel

امارتِ شرعیہ صرف تنازعات کا نام نہیں، ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک روشن باب بھی ہے۔

[قسط دوم]
صفدرا مام قادری
امارتِ شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجّاد کی مستقبل شناس اور دور بیں فہم و فراست کا نتیجہ ہے۔اب سے سو برس پہلے علماے کرام کی تنظیم بنانے کی مولانا سجّاد نے اوّلاً بہار کی سطح پر کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں جمیعۃ العلما جیسی ایک صوبائی اورقومی سطح کی تنظیم قایم ہوئی۔اسی تحریک کا یہ نتیجہ تھا کہ امارتِ شرعیہ بہار کی سطح پر قایم ہوا۔۲۶ جون ۱۹۲۱ کی وہ با بر کت ساعت تھی جب ملک کے ممتاز علماے کرام بہ شمول مولانا ابوالکلام آزاد پھلواری شریف میں سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک ملّی تنظیم کی بنیاد پڑی۔اس وقت بہار ،اڑیسہ، جھارکھنڈ اور موجودہ مغربی بنگال کے بعض حصّے متحدہ صورت میں موجود تھے جس کی وجہ سے امارتِ شرعیہ کا پہلے دن سے یہ حلقہ متعین ہوا ؛جو آج تک موجود ہے۔کسے معلوم تھا کہ یہ مختصر سی جماعت آنے والے وقت میں بیس کروڑ کی آبادی کو اپنے دائرۂ اثر میں لے لے گی جہاں کم و بیش پانچ کروڑسے زیادہ مسلمانوں کی آبادی اپنے مذہبی اور دیگر معاملات میں امارتِ شرعیہ کی طرف نگاہ کرکے دیکھتی ہے۔
امارتِ شرعیہ جب قایم ہوا ،اس وقت ہندستان کی تحریکِ آزادی شباب پر تھی اور بہت جلد وہ فیصلہ کن موڑ تک پہنچ گئی۔مولانا سجّاد کی مذہبی اور سیاسی بصیرت پر قربان جایئے کہ انھوں نے ملّی قیادت کی ذمّہ داریوں کو سمجھا اور مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے سارے فیصلے کیے۔امارتِ شرعیہ اگر چہ مذہبی معاملات کے لیے قایم کیا گیا ادارہ تھا مگر اس سے متعلق افراد ہندستان کی جنگِ آزادی میں انگریز مخالف سر گرمیوں کا حصّہ رہے اور جیل جانے سے لے کر مسجد، مدرسوں اور عوامی منچوں تک غلامی کی زنجیروںسے لڑنے کی ترغیب بہم پہنچاتے رہے۔سب سے بڑا کار نامہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریے اور الگ ملک کے تصوّر کی طرف داری مولانا سجّاد اور ان کے رفقا نے کبھی بھی نہیں کی۔یہ خاص سبب بھی ہے کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں میں امارت شرعیہ کا یہ سیکولر اندازِ نظر مقبول ہوا جو وقت اور سیاست کی ہزار تبدیلوں کے با وجود آج تک قایم اور جاری و ساری ہے۔ایک سے ایک مشکل زمانے آئے مگر امارتِ شرعیہ پر کوئی معمولی فرقہ پرستانہ تہمت بھی نہیں لگائی جاسکی جس کا بنیادی سبب مولانا محمد سجّاد کا ٹھوس نظامِ فکر ہے۔
امارتِ شرعیہ کے ساتھ مولانا سجّاد نے ملّی قیادت کو سیاسی فکر سے آراستہ کرنے اور قومی ترقّی کے لیے فیصلہ کن خدمات انجام دینے کی غرض سے ایک واضح سیاسی اور سماجی پہل کرنے کی کوشش کی۔وہ مسلم لیگ کے نقطۂ نظر کے حامی نہیں تھے مگر مسلمانوں کی آزادنہ شناخت اور قیادت کے امور کو نہایت باریکی سے سمجھتے تھے ۔۱۹۳۷ میں جب انگریزوں نے صوبائی انتخابات کے لیے نئے قوانین بنائے تو مولانا سجّاد نے صوبۂ بہار کی سطح پر مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کو قایم کر کے عوام کے بیچ جانے کا فیصلہ کیا۔پنجاب سے لے کر بنگال تک پورے ملک میں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر کانگریس اور مسلم لیگ کی ایک پہچان تھی۔کئی جگہوں پر دونوں سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ محاذ بنا کر انتخاب میں قسمت آزمائی کی تھی۔بہار میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی وجہ سے مسلم لیگ کی ہوا خراب ہو گئی اور اسے صرف تین سیٹوں پر فتح یابی ملی جب کہ اس سے چو گنی حیثیت کی پارٹی کے طور پر مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کامیاب ہوئی تھی۔ کانگریس نے چوں کہ اوّلاً وزارت میں نہیںجانے کا فیصلہ کیا، اس لیے ۱۹۳۷ میں بہار کی پہلی حکومت بیرسٹر محمد یونس کی سربراہی میں قایم ہوئی جو مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے امیّد وار تھے اور امارتِ شرعیہ سے جڑے مولانا عبدالصمد رحمانی اور مولانا منّت اللہ رحمانی اس اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
جمیعۃ العلما ،امارتِ شرعیہ اورمسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی ؛ سب کے سب مولانا محمد سجّاد اور ان کے اس عہد کے رفقا کی ملّی ،قومی اور سماجی پختہ شعوری کے عکّاس ہیں۔مولانا سجّاد اشیا اور اشخاص کو الگ تھلگ رکھ کر پہچاننے اور سمجھنے کے قایل نہیں تھے ۔ان کے یہاں ایک اجتماعی اور کلّی(Totalitarian) نقطۂ نظر کام کرتا ہے۔اسی لیے مذہبی تعلیم اور ملّی ادارے کی قیادت کے با وجود وہ مسلم لیگ کے بجاے سیکولر جماعتوں بالخصوص کانگریس سے اشتراک کرنے سے گریز نہیں کیا۔جب ضرورت پڑی تومذہبی شناخت کے ساتھ انتخاب میں بھی اُترے ۔یہاںیہ بات یاد رہنی چاہیے کہ وہ دَور جداگانہ انتخاب کا تھا اور مخصوص مسلم سیٹوں پر مسلم لیگ کی ملک بھر میں اجارہ داری مسلّمہ تھی مگر بہار میں مولانا سجّاد کی قیادت نے مسلم لیگ کو شکست کی آخری حد تک پہنچا دیا تھا۔مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کی کامیابی کے دوسرے اسباب بھی تھے۔ممتاز مورخ پروفیسر کالی کنکر دت نے اس دور کی مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشورکے تجزیے کے دوران یہ بتایا کہ زراعتی تصوّرات کے سلسلے میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے یہاں زیادہ بالغ نظری نظر آتی ہے۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس وقت بہار ۹۵ فیصد زراعت پر منحصر صوبہ تھا اور زراعتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام نے اس پارٹی کو اپنا پسندیدہ مانا تھا۔
پورے ہندستان کی سطح پر غور کیجیے تو کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ ملک میں ملّی قیادتوںنے کسی صوبے میں اپنا آزادانہ جال نہیں بچھایا تھا۔مولانا سجّاد کی وجہ سے بہار میں آزادانہ طور پر ادارہ سازی اور اس کی شاخوں کے قیام نے ایک نئی بیداری قایم کر دی۔مرکز کے بعد علاقائی اور ضلعی دفاتر قایم ہونے لگے اور دیکھتے دیکھتے امارتِ شرعیہ ، اس سے ملحق سینکڑں چھوٹے بڑے ادارے،ضلعی دار الافتا اور دار القضا، نقبا اور رفیقوں کے ذریعہ امارتِ شرعیہ کا جو نظام قایم ہوا، اس کی پشت پر مولانا سجّاد اور اس دور کے رفقا کا مطالعہ و مشاہدہ اور ملک و قوم کے حالات کے مطابق ملّت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمہ وقت اورہمہ سمت توجہ اور انہماک کی اہمت سے انکاار نہیں کیا جا سکتا۔یہ درست کہ ایک صدی پہلے مولانا سجّاد اور ان کے ابتدائی رفقا نے امارتِ شرعیہ کا جو تصوّر اپنے ذہن میں رکھا تھا، سو برسوں کے بعد اس کے تقاضے اور چیلنجز بڑھ گئے ہیںمگر جو بنیادی ڈھانچہ انھوں نے سو برس پہلے قایم کیا تھا، اس میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت آج تک سامنے نہیں آئی اور جو اصول و ضوابط مختلف زمانے میں قایم ہوئے وہ بھی کم و بیش اپنے مزاج اور روح کے مطابق اسی طور پر اب بھی ہمارے پیشِ نظر ہیں جس سے مولانا سجّاد کی ذہنی و فکری کشادگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ بات سوچنے کی ہے کہ امارتِ شرعیہ بہار،اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے اثر سے گذشتہ سو برسوں میں آسام،کرناٹک،تمل ناڈو اور متعدد صوبوں میں تصوّر امارت کو زمین پر اتارنے میں کامیابی ملی ہے۔یہ سب مولانا سجّاد کا فیضانِ جاریہ ہے۔اگر چہ مولانا سجّاد نے مسلکی تفریق کو ختم کرنے اور تمام مسلکوں کی یکجا آواز بننے کے لیے امارتِ شرعیہ کو آگے بڑھایا تھا مگر مختلف صوبوں میںالگ الگ مسالک کی امارتوں کے قیام کے حقایق اس ملّی بیداری کا ہی حصہ ہیں جسے پیدا کرنے میں مولانا سجّاد ہمہ وقت کوشاں رہے۔
امارتِ شرعیہ او راس کے امیر شریعت کا حقیقی حلقۂ اثریوں تو بہار،جھارکھنڈ اور اڑیسہ یعنی تین صوبوں تک محدود ہے مگر اس کی طویل تاریخی خدمات اور اپنے انداز کی اوّلین تنظیم ہونے کی وجہ سے اس کے کھلے ہوئے قومی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔مختلف زمانوں میں اسکے قائدین نے بھی اپنا وہ وقار قایم کیااور اپنے کارناموں سے یہ ثابت کیا جن کی وجہ سے یہ ایک قومی ادارہ بن گیا۔ملک میں جب فسطائی طاقتوں کا زور بڑھنا شروع ہوا اور قومی سطح پر طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے لگے، اس دور میں امارتِ شرعیہ نے اپنی اہمیت اور دائرۂ کارمیں وسعت سے واضح پیغام دیا۔ مولانا منّت اللہ رحمانی کے دورِ امارت کو یاد رکھیے جب شاہ بانو کیس اور بابری مسجد کے سلسلے سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں دارالعلوم، دیوبند سے قاری محمد طیب صاحب اورندوۃ العلما سے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور امارتِ شرعیہ سے مولانا منّت اللہ رحمانی کی اجتماعی کوششوں سے مسلم پرسنل لا بورڈ کا وجود اور اس کی سرگر میاں نئے ہندستان کی پیشانی پر لکھے گئے سنہرے حروف کی طرح ہیں۔اسی زمانے سے یہ روایت قایم ہوتی چلی گئی کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر یا نائب صدر ندوہ اور دیو بند سے لیے جائیں گے اور جنرل سکریٹری کے طور پر امیرِ شریعت بہارخدمات انجام دیں گے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری کو طور پر مولانا منّت اللہ رحمانی اور بعد میںمولانا محمد ولی رحمانی کی خدمات سے ایک عالَم واقف ہے۔بابری مسجد کے تعلق سے مقدّمات کا جو لا متناہی سلسلہ شروع ہوا،یہا ں بھی امارتِ شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی لگاتار خدمات کا اعتراف نہ کیا جانا حقیقت سے علاحدگی کی ایک صورت ہوگی۔
شاید انھی اسباب سے امارتِ شرعیہ کے انتخابِ امیر کے مسائل اکثر و بیشتر قومی رُخ اختیار کر لیتے رہے ہیں۔یہ بھی ایک سلجھی ہوئی روایت رہی ہے کہ امارتِ شرعیہ نے خود کو ہمیشہ ایک قومی سطح کا ادارہ سمجھا اور انتخابِ امیر کے سلسلے سے برپا اجلاس ہو یادوسری مذہبی اور علمی تقریبات ،ہر موقعے سے یہاں پورے ملک کے علما اور دانش وروں کو بلانے اور ان سے صلاح و مشورہ کرنے کا ایک رواج رہا ہے۔اس بار بھی جب آٹھویں امیرِ شریعت کے انتخاب کا مرحلہ پیشِ نظر تھا ،آسام اور کرناٹک کے امراے شریعت کے ساتھ ساتھ ندوہ اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ بھی بہ طورِ مشاہدین شریک رہے۔گذشتہ نصف صدی میں بالخصوص مولانا منّت اللہ رحمانی اور مولانا ولی رحمانی چوں کہ چوتھے اور ساتویں امیرِشریعت ہوئے اور اپنی قومی شناخت کی وجہ سے پورے ملک میں پہچان کے حامل مانے گئے۔اسی کے ساتھ سیاسی، سماجی،مذہبی اورتنظیمی مہارتوں کی وجہ سے ان اشخاص کو پورے ملک میں قبول کیا گیا اور ان کی باتوں کو غور سے سنا گیا۔لوگوں نے دیکھا کہ بہار کے یہ امرائے شریعت بے جان اداروں میں جان پھونک دیتے ہیںاوراپنے مستحکم ارادوں اور فہم و فراست کی وجہ سے پورے ملک میں مسلمانوں کے حقیقی مسئلوں اور ان کے سلسلے سے حکومتِ وقت کی کھلے بندوں سرزنش کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔آخر کوئی تو بات ہوگی کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی پریس کانفرنس سے جب مولانا ولی رحمانی خطاب کرتے تھے تو ہندستان کے ٹی۔وی۔چینل اسے لائیو نشر کرنے کے لیے مجبور ہوتے۔یہ امارتِ شرعیہ کی موثر قیادتوں اور قومی اثرات کے کھلے ثبوت ہیں۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد تین اپریل ۲۰۲۱ کو جب امارتِ شرعیہ کے ساتویں امیرِ شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کا وصال ہوا، اس وقت ہندستان ہی نہیںتمام عالمِ اسلام میں ماتم چھا گیا۔ان کی با اثر شخصیت کے نہیں رہنے کا لوگوں کو افسوس تو تھا ہی مگر ہندستان کی مخصوص سیاسی صورتِ حال میں ان کے نہیں رہنے کا غم اور بڑھ گیا۔سب نے یہ محسوس کیا کہ حکومتِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کہنے والا ملّی قائد ہماری بزم سے اٹھ گیا۔یہ نقصان اس وقت سب سے بڑا معلوم ہوتا ہے جب ملّی قائدین کی صفوں میں ان کا بدل اور ہم رتبہ کوئی دوسرا قائدنظرنہیں آتا۔دہلی میں جب حکومت کی زمام ایسی طاقتوں کے قبضے میں آئی کہ مستقبل کی طرف سے ملّت کا ہر طبقہ ہر طرف سے خدشات اور اندیشوں میں گھِر گیا تھا ۔ٹھیک اسی دوران مولانا محمد ولی رحمانی امارتِ شرعیہ کے امیر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔اپنی وفات سے دو ہفتہ پہلے تک وہ چمپارن اور رانچی کے جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ ملّت کو فیصلہ کن عمل کی ترغیب دیتے رہے اور صوبائی یا قومی حکمرانوں کے بُرے ارادوں سے نبرد آزمائی کا سبق پیش کرتے رہے۔الگ الگ علاقوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے نِت نئے اداروں کے قیام کے لیے ان کی سرگرمیاں دیکھتے بنتی تھیں۔آخری مہینوں میں انھوں نے اردو زبان کے مسائل کے پیشِ نظر بہارا ور جھارکھنڈ کی سطح پر آزادانہ طور پر ’’اردو کارواں‘‘ جیسے ایک فعال ادارے کا تصوّر کیا اور مرکز سے لے کر ضلعوں تک اس کی شاخوں کی تشکیل کے لیے میدانِ عمل میں سینکڑوں افراد کے ساتھ بہ نفسِ نفیس خود اترے۔ اپنی تقریر میںانھوں نے کہا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنا لہو دے کر اپنی زبان کوزندہ رکھنے کے کام کو آگے بڑھائیں۔ان کے کام کرنے کی رفتار سے کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو پا رہا تھاکہ وہ آخری سفر کے لیے بس روانہ ہونے ہی والے ہیں۔
مولانا ولی رحمانی کی وفات کے بعد نئے امیرِ شریعت کے انتخاب کے سلسلے سے قومی سطح پر جو بیداری،جوش و خروش اور تنازعات کا ایک سلسلہ قایم ہوا، اس کے پیچھے بھی ولی رحمانی کے گزرنے سے پیدا ہوئے خلا کا وہ احساس تھا جسے پُر کرنے کے لیے یا ان کا بدل تلاش کرنے کے لیے پورا ملک اور پوری قوم متحرک ہو گئی تھی۔ایک سو برسوں میں یہ ادارہ پھلواری شریف،بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے حقیقی دائروں میں قید نہ رہ گیا تھا بلکہ ہندستانی مسلمانوں اور صالح سیاسی و سماجی تصوّرات کی بنیاد پر ملک و قوم کے خواب دیکھنے والوں کی ایک جماعت کا نام امارتِ شرعیہ ہو چکا تھا جسے اب آنے والے سو برسوں کا تصور پیش کرنا تھا ۔ولی رحمانی نے اور ان سے پہلے کے امراے شریعت نے امارت ِشرعیہ کی کار کردگی کو جس اُونچائی تک پہنچا دیا تھا ،اب اس سے آگے کا سفر اس ادارے کو کرنا تھا ۔اتنی توقعات جہاں پیدا ہوں گی،وہاں ہنگامہ آرائیاں اور تنازعات کے امکانات بھی اسی قدر روشن رہیں گے ۔اس سے انکار کرنا یا پردہ پوشی کرنا حقیقت سے منہ چرانے جیسا ہے۔اسی لیے آٹھویں امیرِ شریعت کے انتخاب کے سلسلے میں اختلافات اور رسّہ کشی کے جو مظاہرے ہوئے، وہ ادارے کی مضبوطی اور اس کی اثر پذیری کی دلیلیں ہیں۔
(جاری)

[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS