اجلاس ِ ارباب ِ حل و عقد:دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا!!!
مذہبی اور سماجی تنظیم کا انتخاب حیرت انگیز حفاظتی انتظامات اور پولس اور سِول انتظامیہ کے اہل کاروں کی نگرانی میں ممکن ہوا۔
[قسط چہارم]
صفدرا مام قادری
۹ــ ؍اکتوبرکے اجلاسِ اربابِ حل و عقد کے تعلق سے امارتِ شرعیہ کے قایم مقام ناظمِ اعلا کی جانب سے مجھے جو دعوت نامہ رجسٹرڈ پوسٹ سے موصول ہوا ، اس میں کئی ہدایتیں دی گئی تھیں۔ گیارہ بجے دن سے انتخاب کا وقت مقرر تھا اور خط میں یہ بھی درج تھا کہ گیارہ بجے کے بعد آنے والوں کو داخلہ نہیں دیا جا سکے گا۔یہ بھی ہدایت تھی کہ اصل دعوت نامہ اور فوٹو لگا ہوا شناختی کارڈ بھی انتہائی لازم ہے ورنہ داخلہ ممکن نہ ہو سکے گا۔ میں نے کچھ صحافیوں سے ایک روزز پہلے صلاح ومشورہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی ہدایت تھی کہ دس بجے دن سے بھی پہلے آپ وہاں اپنی نشست لے لیں ورنہ شاید ہی مناسب جگہ مل سکے۔سچائی یہ ہے کہ ایک گھنٹہ پہلے پہنچنے کے باوجوود کم وبیش چالیسویں قطار کے آس پاس ہی جگہ مل سکی۔شہر میں اس بات کی سرگوشیاں بھی چل رہی تھیں کہ مار دھاڑ ، دھکا مُکّی اور پتھر بازی کے ساتھ لاٹھی بھالا اور گولا بارود کے ساتھ انتظام کار اپنے اپنے فریقین کو فاتح بنانے کے لیے پُر جوش ہیں۔بتانے والوں نے یہ بھی کہا کہ پھلواری شریف کی ایک ذیلی گلی میں واقع مقام کو بھی شاید اسی لیے چنا گیا ہے کہ حسب خواہ نتیجہ نہ ملنے پر خلفشار پیدا کیا جا سکتا ہے۔میں نے احتیاطی طور پرذاتی گاڑی نہ لے جانے کا فیصلہ کیا اور ٹیکسی سے جلسہ گاہ پہنچنا مناسب سمجھا۔مہینوں سے جس انداز کی سیاستیں عروج پر تھیں، اس کے سبب احتجاجی اور ماتمی رنگ یعنی سیاہ لباس پہن کر جلسہ گاہ میں پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
ایک سو میٹر پہلے سے ہی پولس کی بھیڑ اور اس سڑک میںلوگوں کے آنے جانے پر روک سے یہ اندازہ ہو گیا کہ اَنہونی کا خوف یہاں بھی موجود ہے۔اربابِ حل و عقد قطاروں میں کھڑے کہیں شناختی کارڈ دکھا رہے تھے ،کہیں مطبوعہ فہرست میں اپنے نام کے سامنے حاضری کانشان لگوا رہے تھے۔اسی بیچ ایک پولس کے عملے نے مجھ سے کہا کہ فون آپ اندر نہیں لے جا سکتے۔مجھے تعجب ہوا کے امارتِ شرعیہ نے جو خط بھیجا تھا، اس میں ایسی کوئی ہدایت نہیں تھی اورتھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا کہ اس فون کو کہاں رکھا جائے۔اسی دوران ایک صحافی شاگرد نظر آئے۔ میں نے فون ان کے سُپرد کیا اور اندر داخل ہو کر ایک مناسب جگہ پر خود سے بیٹھ گیا۔ابھی انتخاب کے آغاز میں پچاس منٹ سے زیادہ وقت بچا ہوا تھا۔ لوگ آتے جا رہے تھے اور اپنی نشستیں لیتے جا رہے تھے۔ایک چھوٹے سے خوش نما جھولے میں نصف لیٹر پانی کی ایک بوتل اور بسکٹ اور مکسچر کے بازار میں ملنے والے سب سے چھوٹے پیکٹ رکھے ہوئے تھے ۔ہال کے اندر بھی ایک شاگرد کام آئے اور میرے لیے وہ خوش نما جھولا کہیں سے مانگ کر لے آئے۔پنڈال بے حد بڑا تھا اور اُوپر سے شاید دیش بھکتی کے اظہارکے لیے ترنگا کے ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔ساڑھے آٹھ سو اربابِ حل و عقد اور کچھ مشاہدین کے بیٹھنے کے لیے معقول تعداد میں کرسیاں لگائی گئی تھیں جن پر سفید رنگ کے خول ڈال کر اور خوب صورت عکس فراہم کیا جا رہا تھا۔کرسی پر بیٹھتے ہی یہ اندازہ صاف صاف ہو گیا تھا کہ:’’ ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔ اندر پلاسٹک کی نہایت معمولی کرسیاں ان سفید کپڑوں میں اربابِ حل و عقد کے لیے رکھی گئیں تھیں۔اربابِ حل وعقد کے اس اجلاس میں کم بیش چار سے پانچ سو ارکان ایسے ہوں گے جن کی عمر ۷۰۔۸۰ اور اس سے بڑھ کر تھی۔مریض اور جسمانی اعتبار سے کمزور افراد بھی کم نہیں تھے۔ہمارے جیسے ادھیڑ آدمی کو بھی دس بجے دن سے لے کر ساڑھے چھے بجے شام تک یعنی ساڑھے آٹھ گھنٹوں کی مدّت تک اس ظالم اور رکھڑی کرسی پربیٹھنے میں جان نکل آئی۔ بہت سارے افراد شاید انھی وجہوں سے مجلس کے درمیان ہی نکل کر چلے گئے اور شاید انھوں نے اپنے حق راے دہی کا استعمال بھی نہیں کیا۔
عام شادیوں میں جس طرح نام نہاد معززین کے لیے اگلی صفوں میں سوفا سِٹ لگا دیے جاتے ہیں، یہاں بھی اسلامی ادارے میں عدم مساوات اور درجہ بندی کے اظہار کے لیے آگے کی چند صفوں میں سوفے اور آرام دہ کرسیاں لگائی گئی تھیں جس میں بہ مشکل ایک سو لوگ بیٹھ سکتے تھے۔یہ بات سمجھ سے پَرے تھی کہ اربابِ حل و عقد میں کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا کیسے ہو گیا؟امارتِ شرعیہ کے تنظیمی ڈھانچے میں سب سے بڑی مجلس تھی تو کیا رنگین شامیانے سجانے کے مقابلے ایک جیسے آرام کے وسائل پوری مجلس کے لیے نہیں فراہم کیے جا سکتے تھے؟گیارہ بجے سے اجلاس شروع ہوا اور ساڑھے چھے بجے شام تک چلا۔اکثر ارکان تو ۹ اور ۱۰ بجے سے ہی آ چکے تھے۔۔حفاظت کے وسائل سے جو مشکلات پیدا ہوئیں، ان میں سے یہ بھی تھا کہ جو شخص ہال سے باہر نکلنا چاہتا ہے،اسے دوبارہ انٹری نہیں دی جا سکتی ہے۔پنڈال کی لمبائی، چوڑائی اور اُونچائی کے مطابق اے،اسی اور کولر اتنے کم لگے تھے کہ رہ رہ کر حبس کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔اس میں بھی خصوصی مہمانوں کے لیے صرف اسٹیج پر ہی دو ائیر کنڈیشنر لگا دیے گئے تھے۔نو سو افراد کے لیے صرف دوباتھ روم ہمیںالگ سے حیرت میں ڈال رہاتھا۔کھانے کے بارے میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ امارتِ شرعیہ میں اس کے لیے انتظامات ہیں مگر ہال میں آٹھ دس گھنٹے پانی اور بسکٹ پر سینکڑوں لوگوں نے گزارے۔کیوں کہ انھیں انتخابِ امیر کی بڑی ذمّہ داری ادا کرنی تھی۔بوڑھے بزرگ کبھی بلبلاتے ہوئے ملتے ،کبھی دو چا ر بسکٹ کے پیکٹ اور کئی بار گزارشوں کے بعد سموسے آئے۔کبھی کبھی کھانے کے پیکٹ بھی نظر آئے مگر وہ سب کے لیے نہیں تھے۔یہ بات اب تک سمجھ میںنہیں آتی ہے کہ مجلسِ استقبالیہ جس کے صدر ڈاکٹر احمد اشفاق کریم صاحب تھے اور جس میں جناب فہد رحما نی بھی موجود تھے یا نائب امیرِ شریعت اور قایم مقام ناظمِ اعلا جیسے افراد کو یہ بات کس طرح سمجھ میں نہیں آئی کہ آٹھ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی بیٹھک جس میں ۶۰،۷۰ اور ۸۰ برس کے افراد کی کثیر تعداد ہے،انھیں بغیر کھانے کے کس اسکیم یا کس بے وقوفی کے تحت بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔
انتخاب کے روز قایم مقام ناظمِ اعلا مولانا محمد شبلی القاسمی اور نائب امیرِ شریعت مولانا محمد شمشادرحمانی قاسمی کا رنگ خوب جما۔مولانا شبلی نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور نائب امیرِ شریعت ہر نازک مرحلے میں بے پناہ تقریری صلاحیتوں سے مجلس کو اپنے اختیار میں کرنے میں کامیاب ہوئے۔مولانا شبلی کو بھی بار بار اپنی تقریری صلاحیتوں کے استعمال کا موقع ملا اور اکثر مراحل میں وہ کامیاب رہے۔اربابِ حل و عقد سے اپنی پسند کے ناموں کی پرچیاں بھیجنے کی جب انھوں نے گزارش کی تو ایک بھاگم بھاگ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔عوام میں ایک لمحے کے لیے یہ شبہات بھی پیدا ہوئے کہ قایم مقام ناظمِ اعلا کے اعلان کے ۱۰ سکنڈ میں پچاسوں پرچیاں بھاگتے دوڑتے لوگوں نے آخر کیسے اُن تک پہنچا دیں۔کاغذ نکالنے، ان پر اپنے پسندیدہ امیر کا نام لکھنے اور پھر اپنا نام اور موبایل نمبر اس پرچی پر لکھنا تھا۔اس کام میں ایک دومنٹ تولگنا ہی چاہیے۔ اربابِ حل وعقد کے نا وابستہ افرادمیں یہ سر گوشیاں ہونے لگیں کہ پرچیاں مانگنے کا ناظم صاحب کا اعلان پہلے سے متعین تھا اور خاص لوگوں کو اس کی اطلاع بھی تھی۔ورنہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے پاس لکھی ہوئی پرچیاں تیّار شدہ حالت میں نہیں ہو سکتی تھیں۔اس کے ردِّ عمل میں پنڈال کے دوسرے گوشوں سے عدم اطمینانی کا اظہار ہوا اور احتجاج کی صورت پیدا ہوئی۔ نائب امیرِ شریعت نے مداخلت کی اور دھیرے دھیرے کم و پیش سو پرچیاںدوسرے لوگوں نے بھجوائیں۔ شروع میں جو پرچیاں پہنچی تھیں، ان میں مولانا خالد سیف اللہ،مولانا انیس الرحمان قاسمی اور مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے نام لکھے گئے تھے۔بعد کی پرچیوں میں مولا نا شمشاد رحمانی اور مفتی نذرِ توحید صاحبان کے نام شامل تھے۔اسٹیج کی طرف سے ناظمِ امارتِ شرعیہ اتّفاق رائے کی تلقین کرتے رہے ۔اسی بیچ مولانا شمشاد رحمانی نے مائک پر آ کر یہ واضح کیا کہ وہ پہلے سے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ امیرِ شریعت کے اُمیّد وار نہیں ہیں۔حالاں کہ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ امارتِ شرعیہ میں صرف دو امیرِ شریعت ایسے تھے جو نائب امیرِ شریعت نہیں تھے ورنہ اکثر نائب امرائے شریعت کو یہ ذمّے داری دی گئی ہے۔اس کے بعد انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ مولانا نذرِ توحید بھی اپنی اُمیّدواری کو واپس لے رہے ہیں۔اب ابتدائی تین اُمیّدواروں میں مقابلہ تھا۔ اسٹیج سے بار بار یہ اعلان ہوتا رہا کہ باقی ماندہ اُمیّد واروں میں اگرکوئی نام واپس لینا چاہتا ہے تو وہ پہل کر سکتا ہے۔ایسی صورت حال میںاجلاس میں ارباب کی طرف سے ووٹنگ کرائے جانے کے حکم نامے آنے لگے۔ اسٹیج سے یہ بھی کہا جانے لگا کہ یہ تینوں معزز افراد آپس میں صلاح و مشورہ کرکے اتّفاق رائے سے کسی ایک کو امیرِ شریعت کے لیے منتخب کر لیں ۔مگر کوئی اپنی جگہ سے نہیں اُٹھا۔پھر نائب امیرِ شریعت مائک پر آئے اور انھوں نے اعلان کیا کہ مولانا خالد سیف اللہ نے اپنا نام واپس لے لیا۔اب صرف دو اُمیّدوار میدان میں بچے ۔مولانا احمد ولی فیصل رحمانی اور مولانا انیس الرحمان قاسمی۔پھر ناظمِ اعلا نے ان دونوں کے بیچ اتّفاق رائے قایم کرنے کی کوشش شروع کی مگر اس میں کوئی گنجائش نہیںپیدا ہو سکی۔اس دوران پنڈال سے سینکڑوں کی تعداد میں افراد’’ ووٹنگ ووٹنگ‘‘ کی صدا بلند کرتے رہے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ صورتِ حال قایم ہو گئی کہ الیکشن ناگزیر ہو گیا۔
سو برس کی اس تنظیم میں ایسی نوبت کبھی نہیںآئی تھی کہ ایک ایک رُکن کی تحریری رائے لی جائے۔یہ اچھا ہوا کہ امارتِ شرعیہ اور استقبالیہ کمیٹی کے افراد انتخابی کاموں سے الگ تھلگ رہے اور پولس اور انتظامیہ کے افسروں کے ہاتھ میں اربابِ حل عقد کی فہرست دے دی گئی تھی۔ وہ مائک سے ایک نام کاا علان کرتے ،وہ رُکن اسٹیج تک پہنچ کر اپنا آئی کارڈ دکھا کر کاغذ کا وہ پُرزہ حاصل کرتا اور پھراس پرچی پر قلم سے اپنے پسندیدہ اُمیّدوار کا نام لکھ کر پولس کے قبضے میں رکھے ہوئی بیلٹ باکس میں وہ پرچی موڑ کر ڈال دیتا۔یہ سلسلہ تین گھنٹوں سے زیادہ چلا۔ مولانا خالد سیف اللہ نے بھی وہ پرچی لی اور اپنے پسندیدہ نام کو درج کر کے اس پسند کو بکسے میں ڈال دیا۔معلوم ہو کہ مولانا خالد سیف اللہ نے چند ماہ قبل اس الکشن اور بیلٹ پیپر کو غیر مناسب اور اسلامی شان کے منافی مانا تھا۔الکشن کے انتظامات اور کھانے پینے کی قباحتوں کی وجہ سے کم از کم ایک سو ارکان ہال میں آنے کے باوجود ووٹ نہیں دے سکے۔ پھلواری شریف کے اے۔ایس۔پی اور ڈی۔سی۔ایل۔آر کے شامل دیگر افراد نے مکمل سختی اور مستعدی سے انتخاب کے اس عمل کو انجام تک پہنچایا۔ووٹوں کی گنتی بھی انتظامیہ کے افراد کی نگرانی میں دونوں اُمیّدواروں کے براہِ راست نمائندوں، مشاہدین اور مجلسِ استقبالیہ کے تمام ممبران کے موجودگی میں مکمّل ہوئی۔نتیجے کے کاغذات پر امارتِ شرعیہ، پولس انتظامیہ اور استقبالیہ کمیٹی کے افراد نے دستخط کرکے پھر نتیجے کا اعلان کیا۔موجود افراد میں ۳۴۷ لوگوں نے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کو امیرِ شریعت چننے کے لیے ووٹ دیا تھا جب کہ مولانا انیس الرحمان قاسمی کو ۱۹۷ ووٹ ملے اور وہ ڈیڑھ سو ووٹ پیچھے رہ گئے۔پھر باری باری سے قاضیِ شریعت ،ناظمِ اعلا اور نائب امیرِ شریعت نے باضابطہ طور پر رسمی بیعت کا اعلان کیا۔اس طرح امارتِ شرعیہ بہار،جھارکھنڈ اور اڑیسہ کو نیا امیرِ شریعت حاصل ہوا۔
انتخاب کے روز ایک طرف پولس انظامیہ کی سختی اور متعینہ اصول وضوابط کی پابندی کرانے کی وجہ سے بہت سارے مسائل کم ہوئے اور متوقع خدشات کی گنجائشیں کم ہوتی چلی گئیں۔جب جب کوئی مشکل گھڑی آتی اور ہنگامے کے اسباب کھڑے ہونے لگتے، نائب امیرِ شریعت مولانا شمشاد رحمانی مائک تھام لیتے اور اپنی نپی تلی اور موثر گفتگو کرکے پوری مجلس کو اپنی مٹھّی میں قید کر لیتے ۔مجلسِ استقبالیہ کے بعض افراد کی سرگرمیاں سوالوں کے دائرے میں آتے آتے رہ گئیں ۔استقبالیہ کے جو پہلے چیر مین نامزد ہوئے تھے اور جنھیں بعد میں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا ،ان کی حالت تو یہ تھی کہ ووٹ دینے کے لیے قطار میں جب میں کھڑا تھا، اس وقت انھوں نے مجھ سے ایک اُمیّدوار کے حق میں ووٹ دینے کا پیغام دیا۔یہ ازروئے انصاف نا مناسب بات تھی۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران فرق اتنا تھا کہ اسے ہلکی پھلکی فتح یابی نہیں کہی جا سکتی تھی۔شاید یہی وجہ ہو کہ عوامی سطح پر ہنگامہ آرائی کی کوئی گنجائش شاید ہی ممکن تھی۔ اس لیے انتخاب سے پہلے جتنے ہنگامے اور ہنگاموں کی توقعات پیدا ہو گئیں تھیں،وہ سب ایک جھٹکے میں ختم ہو گئیں۔سچ میں وہاں کوئی ایسا تماشا نہیں ہوا جیسا کسی نے سوچا تھا بلکہ امیرِشریعت کا انتخاب بہ حسن و خوبی اور امن و سکون کے ساتھ مکمّل ہوا۔ (کل آخری قسط)
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
[email protected]