اللہ ربّ العزت کا امتِ مسلمہ کے لئے ماہِ رمضان ایک عظیم تحفہ ہے۔ بخشش کا ذریعہ ہے۔ برکتوں ، عظمتوں ، انوار و تجلیات اور رحمتوں کی برسات کا سبب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا سلہ ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، مغفرت اور نار سے آذادی کا پروانہ عطا ہوا ہے۔ مسلمان اس ماہِ صیام کی قدر کرتے ہوئے نیک اعمال روزہ ، نماز ، زکوٰۃ، تلاوت اور صدقہ و خیرات ادا کرتے ہیں۔ حقیقت میں عید روزہ داروں کی ہے۔ جنھوں نے اللہ ربّ العزت کے حکم و رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق پورے ماہ کے روزے رکھے ہیں۔ تراویح کی نماز کےساتھ پنج وقتہ نمازیں با جماعت ادا کی ہے۔ صدقہ خیرات ادا کیا ہے۔ ایسے ہی بندوں کے بارے میں اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ اے !!!۔۔۔۔۔ فرشتوں ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں یا اللہ عزوجل انھیں انکی مزدوری ملنی چائیے۔ ربِ کائنات ارشاد فرماتا ہے کہ اے ۔۔۔۔ فرشوں تم گواہ رہنا میں نے انکی مغفرت کردی ہے۔ ان کے روزوں کا بدلہ میں خود اپنے ہاتھوں سے دونگا۔ میں انھیں وہ انعامات و اکرامات عطا کرونگا جن کا میں نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ وہ یقیناً ان نعمتوں کو پانے والے، میرے خوش نصیب بندے ہیں۔ جو ہمیشہ ہمیشہ اس نعمتوں کے ساتھ عالیشان مقامات، محلوں میں رہے گے۔ عید کے دن اللہ ربّ العزت اپنے بندوں کو انکے کئے گئے اعمال کا اجر عطا کرتا ہیں۔ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھوں نے ماہِ رمضان میں اہتمام کے ساتھ نیک اعمال کئے ہیں۔ عید کے روز اللہ اپنے بندوں پر خصوصی انعامات کی بارش کرتا ہے۔ انکی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔
عید الفطر میں دو لفظ ہیں۔’’ عید کا لفظ ”عود“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنیٰ”لَوٹنا“ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے، ہر مسلمان اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ اسکے جانے سے رنجیدہ و افسردہ ہوجاتا ہے۔ اور ”فطر“ کے معنیٰ ”روزہ توڑنے یا ختم کرنے“ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے دن، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتا ہے، تو اِسی مناسبت سے اسے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بطورِ تہوار منائے جاتے تھے۔ اور لوگ اس دن کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں اسلام سے پہلے یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘ نبی کریمﷺ نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے اور اسی کے ساتھ ہمارے دوست و احباب اور رشتےداروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یعنی انھیں بھی ہر اعتبار سے ضروری وسائل و سامان مہیا کیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی عید کے دن اچھا پہننے اور اچھے کھانا پینے والے بن جائے۔ ہم مستحق لوگوں کو صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ ادا کرکے انہیں عید کی خوشیاں عطا کرسکتے ہیں۔ نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔ احادیثِ مبارکہؐ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اُسے آسمانوں پر’’ لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی’’ محاسبہ کی یا انعام کی رات‘‘ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے اور جب صبحِ عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جسے جنّات اور انسانوں کے سِوا ہر مخلوق سُنتی ہے، پکارتے ہیں کہ’’ اے اُمّتِ محمّدیہﷺ اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ ربّ العزّت فرشتوں سے فرماتا ہے’’ اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں’’ اے ہمارے معبود! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کردی جائے‘‘، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ اے فرشتو! تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اُنہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرمادی‘‘ اور پھر بندوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ’’ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم! آج کے دن آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔ دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میرے عزّوجلال کی قسم! مَیں لےتمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رُسوا نہ کروں گا۔ مَیں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘
عید الفطر کی سُنتّیں
احادیث کی کتب میں عید کے دِن کی متعدّد سنتیں مرکوز ہیں۔
(1) صبح سویرے اُٹھنا۔
(2)غسل کرنا۔
(3) مسواک کرنا۔
(4) نئے یا جو بہتر کپڑے موجود ہوں، پہننا۔
(5) خوش بُو لگانا۔
(6) شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا۔
(7) عید گاہ جلد پہنچنا۔
(8) عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا
(9) عید گاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا
(10) عید کی نماز (مسجد کی بجائے) عید گاہ یا کُھلے میدان میں پڑھنا۔
(11) ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے سے واپس آنا۔
(12)’’ اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ آہستہ آہستہ کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جانا۔
(13) نمازِ عید کے لیے پیدل جانا، تاہم اگر عیدگاہ زیادہ دُور ہو یا کم زوری کے باعث پیدل نہ جا سکتے ہوں، تو سواری پر بھی جانے میں مضائقہ نہیں۔
صدقہَ فطر سے غرباء،یتیم اور مساکین کی مدد
حدیثِ نبوی میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان عید سے پہلے صدقہَ فطر ادا کریں۔ یہ واجب عمل ہے جسکا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے عزیز و اقارب میں رشتےداروں میں یا پاس پڑوس میں ایسے افراد پر نظر رکھے۔ جو تنگی و غربت کی وجہ سے عید کی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں۔ جن کے پاس اچھے لباس نہیں ہے۔ پہنے کے لئے جوتے چپل نہیں ہیں۔ کھانے کے لئے لزیز کھانا مہیا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تلاش کرتے ہوئے انھیں ہم سے جو ممکن ہوسکے، جتنا ممکن ہوسکے سامان و وسائل دے کر انکی مدد کرے۔ انھیں عید کی خوشیوں میں ہمارے ساتھ شامل کریں۔ ایک فرد کا صدقہَ فطر کی مقدار دو کیلو پینتالیس گرام گیہوں یا اسکی موجودہ قیمت ہے۔ کی س حساب سے اپنے گھر کے تمام افراد کی جانب سے حساب کرکے صدقہَ فطر ادا کریں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا پسندیدہ عمل ہے۔ ایسا کرنے سے ہم یقیناً عید کے مکمل انعامات و اکرامات اور بھر پور اجر و ثواب کے مستحق ہونگے۔ جس سے ہماری دنیا و آخرت کامیاب ہونگی۔ اس ضمن بہت سی احادیث موجود ہیں۔ عید ان لوگوں کی نہیں ہیں۔ جو عمدہ لباس زیب تن کرکے شان وشوکت کے ساتھ عید گاہ پر جائے اور اپنے ہم سایوں ، پڑوسی اور رشتے داروں کی طرف نظر نہ کرے۔ بلکہ اصل عید تو ان خوش قسمت بندوں کی ہے۔ جنھوں نے روزے ،نماز اور زکوٰۃ خیرات صدقات سے مفلس غرباء یتیم و مساکین کی مدد کی۔ ایسے ہی بندوں کو اللہ ربّ العزت کثیر اُجرت یعنی اجر ثواب سے نوازتا ہے۔
اللہ عزوجل سے دعا گو ہوں کہ اے پروردگارِ عالم !!!۔۔۔۔ ہمیں عید الفطر کی تمام نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال کردے۔ ہم گناہگاروں و بدکاروں کی عبادات و اعمال کو اپنی شان کے لائق بناکر قبول فرمائے۔ اور ہمیں دونوں جہانوں کی کامیابی و خوشیاں عطا فرمائے۔ ثمہ آمین
ازقلم
حُسین قریشی
بلڈانہ (مہاراشٹر)