تعلیمی صورت حال اور ہماری تیاریاں

0
image:techaide

اَمَۃُ الرحمن کلثوم
انسانی زندگی ہمیشہ بدلتے ہوئے حالات،حادثات،اللہ کی طرف سے بھیجے گئے عذاب اور سزاؤں سے بہت کچھ سیکھتی ہے۔ سبق لے کر سنبھلتی ہے اور آئندہ ہر مشکل اور محاذ پر کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے کمر بستہ ہوتی ہے۔ ہم سب کی زندگیوں نے بھی بہت سے تجربات اور مشاہدات کئے ہیں۔ آندھی،طوفان،سیلاب،زلزلے پتہ نہیں کیا کیا آئے اور کوئی نہ کوئی سبق دے کر چلے گئے ۔لیکن کورونا وائرس اور اس کا خوف تو گزشتہ ڈیڑھ سال سے مسلط ہے۔ صحت،تعلیم،کاروبار، سچی انسانیت اور نہ جانے کیا کیا چھین کر بھی جانے کو تیار نہیں ہے۔ ہم اپنے جسمانی دفاعی نظام کو درست اور مضبوط کرنے کے انتظامات کر رہے ہیں۔ کاروبار اور تجارت ڈھرّے پر آجائے اس کے لئے بھی کوشش جاری ہے لیکن تعلیمی شعبہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہے۔ کوئی پلاننگ اور تیاری نظرنہیں آتی۔جس چیز کو سب سے مقدم ہونا چاہئے وہ سب سے پیچھے ہے ۔ جس کو ترجیح حاصل ہونی چاہئے اسے یکسر نظر انداز کردیا گیا ،یہ واقعی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔
دینی تعلیمی ادارے جن کو دین کا قلعہ اور انسانی آبادی کے لئے بجلی گھر اور پاور ہاؤس کہا گیا ہے ، ان پر ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت گیا ، کوئی پوچھنے نہیں آیا کہ آخر دوسروں کے دین و عقیدہ کی حفاظت کرنے والے یہ ادارے اچانک خود غیر محفوظ کیسے ہوگئے ؟یہ کب تک بند رہیں گے ۔ انسانی آبادی میں بجلی کی سپلائی کے راستے کیسے نکالے جائیں گے ؟۔ بہت سے مدرسین اور طلبہ نے حالات کے آگے سپر ڈال دیا ، تعلیم کے کارواں سے بچھڑ گئے۔کچھ دینی تعلیمی اداروں کے ذمہ داران نے ہمت دکھائی اور اپنے عملہ کوکچھ وقت کے لئے جوڑے رہنے پر توجہ مرکوز کی لیکن حالات کی گردش نے ان کا بھی امتحان لیا۔بے شک دو سال کا عرصہ بہت طویل ہوتا ہے، اس مدت میں وبا اور اس کے سبب لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ایسے ایسے الم ناک واقعات پیش آئے ہیں جو انسانی تاریخ میں کبھی نہیں پیش آئے تھے۔عام لوگوں کی طرح علماء اور ائمہ نے بھی بہت سخت دن گزارے ہیں۔ تنگی کی حالت میں انتہائی تشویشناک صورت حال کا سامنا کیا۔ا س صورت حال کا مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا گیا۔ ہمارا بہت قیمتی سرمایہ ضائع ہوگیا، کسی ایک ادارے سے ایک استاد اور چند طلبا کے چلے جانے کو معمولی نہیں سمجھا جانا چاہئے، کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کسی طرح پھر وہ قافلہ میں شریک ہوکر رفتار سفر کو تیز ی فراہم کرسکیں ۔ اسی طرح اس سلسلے میں بھی کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے دینی تعلیمی ادارے کوئی ایسا نظام بنا سکیں جس سے غیر موافق حالات آنے پر وہ مجبور ِمحض نہ رہ جائیں ۔
ہماری قوم معذور نہیں ہے، پھر بلا وجہ اسے کیوں معذور سمجھااور بنایا جائے؟ ماہانہ فیس کے بارے میں بھی راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے ،ممبر سازی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔دینی تعلیمی اداروں کو دانش گاہ ، علم و معرفت کا گہوارہ، تربیت گاہ ، اصلاح و تزکیہ کا مرکز ہی رہنے دیا جائے، انہیں مجبوری کا اڈہ نہ بنایا جائے۔جس طرح کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ہم سب نے اپنے جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے ویکسین اور مقوی وفرحت بخش دواؤں کی طرف دوڑ لگائی ہے اسی طرح ہمیں ان اداروں کے نظام کو دوبارہ از سر نو درست اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مالیاتی نظام کو دبے کچلے ،مجبوریا غیر مخلص لوگوں کے بھروسے نہ چھوڑا جائے بلکہ ایسے لوگوں کے سپرد کیا جائے جو محسوس کریں کہ یہ ادارے قوم اور ان کے بچوں کے ایمان و عقیدہ کی اصلاح کے لئے بہت ضروری ہیں اور دیگر امور و ضروریات کے بالمقابل ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دینی تعلیمی اداروں کی خبرگیری کی طرف اس پوری مدت میں توجہ بہت کم رہی ہے، ملت کے تمام طبقات اور اداروں کی طرف سے اس معاملہ پر بے توجہی برتی گئی ہے۔ ہر طرف سے صرف مایوسی اور محرومی ہاتھ آئی ہے۔ جن اداروں نے شعبہ جات کی پوری لمبی لمبی فہرست بنا رکھی تھی ان کے بھی جیسے سارے شعبہ جات یک لخت بند اور مفلوج ہوگئے ۔ حکومت نے صرف جمع ہوکر کسی کام کے کرنے سے روکا تھا لیکن یہاں تو سب کچھ بند ہوگیا ۔چوک زبردست ہوئی ہے ، نقصان سب کا ہوا ہے، جانی ، مالی ، دینی ، علمی ، اخلاقی ، سیاسی ، ملی اور فکری ہر محاذ پر ہمارا امتحان ہوا ہے۔ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس امتحان میں ہم سب کامیاب نہیں ہوسکے۔ لیکن ناکامی کا داغ دھلنے کے لئے اللہ نے ہم سب کوایک موقع دیا ہے ،ہم تلافی و تدارک سے اپنی محرومی کے احساس کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم اس موقع کو غنیمت جان کر سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو سب سے زیادہ فعال اور با اثر بنانے کی کوشش کریں ، اگر یہ شعبہ مضبوط و مستحکم ہوگیا تو رفتہ رفتہ ہماری زندگی کے تمام شعبے صحیح نہج اور درست راستے پر آجائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS