معلمانہ کردار- سیرت رسولؐ سے رہنمائی

0

ایس ایم عارف حسین،مشیرآباد، حیدرآباد

حضرت محمدؐنے عالم انسانیت کو آگاہ کیا کہ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘آپؐ کا یہ انکشاف دنیا بھر کے معلمین کے لیے باعث افتخار ہے۔’ معلم‘ استاد گرو یا ماسٹر کو کہتے ہیں جو پڑھنا لکھنا سکھائے، کوئی ہنر بتائے،کسی کھیل میں رہنمائی کرے، اجتماعی و معاشرتی کاموں میں رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالے ۔اللہ نے حضورؐ کو ساری انسانیت کے لیے’معلم‘ و آخری رسول اور رحمت اللعلمین بناکر بھیجا اور آپؐ پر اپنی ہدایات کو ’قرآن مجید‘ کی شکل میں نازل فرماکر دین اسلام کی تکمیل کی۔اس طرح آپؐ کی معلمانہ حیثیت کو مستحکم کیا۔جبریلؑ جب بھی اللہ کی جانب سے’ وحی‘ لے کر آتے آپؐ کے آگے دو زانو ہوکر بیٹھتے اور وحی پہنچاتے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک فرشتہ ہوتے ہوئے معلم حضورؐ کا کس قدر احترام کرتے تھے۔ آپؐ سارے عالم کے لیے ایک معلم بناکر بھیجے گئے۔ آپؐ کی نبوت والی زندگی کا ہر لمحہ چاہے وہ ظاہری ہو یا پردہ والا وہ برتاؤ کے لحاظ سے معلمانہ صفت سے بھرپور تھا۔جب جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی اس کو اپنے گھر والوں اور صحابہؓ میں جلد از جلد پہنچا دیتے اور بار بار وحی کے مضمون کو دہراتے، زبانی یاد فرمالیتے اور صحابہؓ کو بھی زبانی یاد کرنے کی جانب توجہ مبذول کرواتے۔
دنیا بھر کے معلمین کو یہ سبق لینا چاہیے کہ کسی’مضمون‘ کو اپنے شاگردوں تک پہنچانے سے پہلے انہیں خود اچھی طرح پڑھ لینا اور یاد کرلینا چاہیے پھر شاگردوں کو پڑھنے اور یاد کرنے کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔آپؐ کی اس معلمانہ صفت سے یہ درس ملتا ہے کہ کسی بھی کام کی ہدایت سے قبل از خود اس پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی کہیں جاکر دوسروں پر مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔’معلم‘ وہی نہیں ہوتا جو دنیاوی تعلیم کی اسناد رکھتا ہو بلکہ اصل معلم تو وہ ہوتاہے جوزندگی کا ہر پہلو جیسے اٹھنے بیٹھنے،چلنے،آرام کرنے، کھانے پینے، اپنے گھروالوں اور پڑوسیوں، رشتہ داروں، دوست واحباب کے ساتھ برتاؤ، روزگار کے حصول کے جائز طریقہ کو اپنانے، اپنے دین کی اشاعت پر محنت کرنے، معاشرہ کے افراد کی ہر اچھی بری خبر کا علم رکھنے، معاشرہ کی اجتماعی بہتری و سدھار کے لیے عملی اقدامات کرنے، اپنا اوردین وملت کا تحفظ کرنے ، دین کی بقاء کی فکر کرنے اور ضرورت پڑجاے توسماجی دشمن کے خلاف کھڑے ہونے جیسی تمام کیفیات کا مالک ہوتا ہے۔حضورؐ کی زندگی کا معمول تھا کہ آپؐ کم کھاتے، کم سوتے، سادہ لباس زیب تن کرتے، شیریں گفتگو کرتے اور آواز درمیانی ہوتی،کسی مزاحیہ بات پر بلند قہقہوں کے بجائے صرف مسکراتے، مقرر کی حیثیت سے مجلس میں ہر فرد کی بات پر توجہ دیتے اور پوچھے گئے سوال کا اطمینان بخش جواب دیتے۔ ہر کام کی شروعات سے قبل اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے۔جہاں تک آپؐ کی نجی زندگی کا تعلق ہے آپ ؐ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزارتے۔رات کا قریب دوتہائی حصہ عبادت اور اللہ کے سامنے گڑگڑاکر رونے ،خاص کر اپنی امت کی بہتری اور بخشش کے لیے دعا کرنے اور شکر ادا کرنے میں گزرجاتا۔ عبادت میں کھڑے کھڑے آپؐ کے پیر مبارک پر سوجن آجاتی۔اپنے گھر کے کام میں اپنی ازواج کی مدد فرماتے۔ خوش کرنے کے لئے کبھی کبھار ان کے ساتھ کھیلا کرتے۔ آپؐ کے گھر جب آپ کی بیٹی تشریف لاتیں تو محبت میں استقبال کے لیے اٹھکر کھڑے ہوجاتے اور بیٹی کی پیشانی کو چومتے۔ جب کبھی گھر سے باہر جانا ہوتا سب سے آخیر میں بیٹی سے ملاقات کرکے گھر سے رخصت ہوتے۔ آپؐ کے بیٹی و داماد میں کچھ ان بن ہوجاتی تب بنفس نفیس معاملہ کو سلجھاتے۔ آپؐ اپنی رضائی بہن کو بھی بہت زیادہ چاہتے یہاں تک کہ جب بہن آپؐ سے ملنے گھر آتیں تب آپؐ استقبال فرماتے اور اپنی چادر پھیلاکر اس پر بٹھاتے اور جب رخصت ہوکر جانے لگتیں تو آپؐ گھر کے باہر تک آکر رخصت کرتے اور بہن کے جاتے ہوئے منظر کے آنکھوں سے اوجھل ہونے تک انتظار فرماتے۔آپؐ اپنے نواسوں سے والہانہ محبت کرتے، ایسا بھی دیکھا گیا کہ حالت نماز میں جب نواسہ آپؐ کی پیٹ پر سوار ہوجاتے تب آپؐ سجدوں کو طویل فرماتے ۔ حضورؐکی مذکورہ بالا صفات سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ معلم صرف اسی کو نہیں کہتے جو دنیا کی اعلی تعلیم حاصل کرکے اسنادات کا مالک بنے بلکہ ضروری ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کی اچھائیوں اور برائیوں کے فرق سے انسانوں کو واقف کراتے ہوئے معاشرہ میں انفرادی و اجتماعی بہتری لائے۔حضورؐ کی معلمانہ صفات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک حقیقی معلم کے اندر کیا کیا صفات ہونی چاہیے۔دور حاضر کے معلمین کو چاہیے کہ سچے معلم بنیں۔ اس کے لیے حضورؐ کی مذکورہ بالا صفات پر عمل کرنا لازمی ہے تب ہی کہیں جاکر’ ایک حقیقی معلم‘کا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS