فیاض احمد برکاتی مصباحی
حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی جہاں علم وفضل، تقوی وطہارت، منطق وفلسفہ، حدیث وتفسیر، فقہ واصول فقہ کے محافظ تھے وہیں نئی نسلوں کی بہترین آبیاری کے معاملے میں بھی اچھے نگہبان، مشفق مربی اور نہایت کرم فرما استاذ بھی تھے۔ اپنے شاگردوں سے بے پناہ شفقت اور ان کی علمی تربیت جامعہ اشرفیہ کی تاریخ کا ایک عظیم باب ہے۔
حضور حافظ ملت قوم کے لیے درد مند دل رکھنے والے ایک ولی تھے۔ بے بسی کی نیند سوئی ہوئی قوم کے دلوں میں زندگی کی جوت جگانے کے ہنر سے واقف تھے، افراد سازی کے لیے کس طرح جگر کا پتہ پانی کرنا ہوتا ہے آپ اس کی اونچ نیچ کو بھی اچھی طرح جانتے تھے ۔ آپ نے زندگی کے نشیب وفراز کا بھی خوب مقابلہ کیا ، ادارے کی ذمہ داری، قوم کے مسائل، تعلیم وتعلم کی پیچیدگیاں، نظم وضبط کی درستگی کے حادثات ان سب پر مستزاد یہ کہ ایک غیر علمی حلقے کو علم کے نور سے مستنیر کرنے کی کرامت، ان سب موضوعات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسلیں اپنا راستہ متعین کرسکیں۔
حافظ ملت نے ایک مکتب یا ایک چھوٹے سے ادارے کو دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر دارالعلوم کو جامعہ کی صورت میں زمین پر اتار دیا۔ نہ کوئی مذہبی بیک گراؤنڈ، نہ کوئی خاندانی جاہ و حشم، نہ کوئی شہرت وناموری اور نہ ہی کسی طرح کا سیاسی رسوخ۔ دن بھر طلبہ کے درمیان تدریس اور تربیت میں گزرتا، شام ہوتی تو کہیں جلسے اور میلاد میں تشریف لے جاتے، جو وقت خالی بچ جاتا آپ اہل مبارک پور کی نذر کردیتے۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر جب آپ کی زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے حیرت انگیز طور پر آپ کے آفاقی منصوبے کے پیچھے جو روحانیت کار فرما ہوتی ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی افراد سازی والی حکمت عملی اور اپنے روحانی فرزندوں کے دلوں میں اپنا درد دروں کا انڈیلنا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں اہل سنت کے بے شمار مدارس وجود میں آئے لیکن جامعہ اشرفیہ کا نظام تعلیم آج بھی سب کے لیے حیرت کا باعث ہے۔
حافظ ملت علیہ الرحمہ نے مبارک پور میں مضبوط درس نظامی کی شروعات فرمائی، جس کی شہرت بہت جلد ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی ہے۔ حافظ ملت کا مبارک پور پس ماندہ ترین علاقہ تھا، جہاں آج بھی ٹرینوں کی اچھی سروس مہیا نہیں ہے، بسیں کم چلتی تھیں، پھر کوئلے کے انجن سے چلنے والی ٹرینوں کے دور میں کرناٹک، مہاراشٹرا، ایم پی، راجستھان اور گجرات کے طالب علموں کے لیے سفر کتنا مشکل رہا ہوگا اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے ہر حصے میں دین کا شغف رکھنے والے والدین کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کا بچہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کرے۔ آپ نے طلبہ کو پریشانی سے بچانے کے لیے یہ نظام بنایا کہ ہر طالب علم پہلے دارالعلوم کے نام خط لکھے پھر جوابی خط ملنے پر عازم سفر ہو۔ جب طالب علم مبارک پور پہونچ جاتا تو حافظ ملت اس کا متحان کرتے اور اس کی صلاحیت کے مطابق اسے کسی جماعت میں رکھ دیتے۔ آپ ایک نباض ماہر نفسیات تھے، طلبہ کی پیشانی کی لکیروں سے اس کی ذہنی، علمی، نفسیاتی اور معاشی حالت کو جان جاتے۔ درس گاہ میں طلبہ کو عبارت خوانی کے لیے کہتے اور کبھی کبھی عبارت توضیح و تشریح کے ساتھ نحوی اور صرفی ترکیب بھی پوچھ لیتے۔ ہر طالب علم سے شفقت سے پیش آتے۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کا ہر شاگرد خودکوآپ کا سب سے زیادہ قریبی محسوس کرتا۔ طلبہ اپنی ہر پریشانی حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش فرماتے۔ آپ درس کی بڑی پابندی فرماتے اور طلبہ کو بھی بلاناغہ درسگاہ میں حاضر رہنے کی تاکید فرماتے۔ اپنے شاگردوں کو مطالعے کی ترغیب دیتے، کتابوں کا نصاب زیادہ ہوتا جس کی وجہ سے طلبہ میں پڑھنے کا رجحان ہوتا تھا، ذہنی صلاحیت اور فطری دل چسپی کا خصوصی خیال فرماتے۔ طلبہ بیمار ہوتے تو ان کے علاج و معالجے کا انتظام کرتے۔ عیادت کرتے اور جو ضرورت ہوتی اسے پوری فرماتے۔ آج کے اساتذہ کی طرح طلبہ سے صرف درس گاہی تعلق قائم نہیں رکھتے بلکہ آپ ہر طالب علم کے اتنے قریب ہوتے کہ ہر طالب علم اپنی خانگی الجھنیں بھی آپ کے سامنے رکھتا اور ان کے ماں باپ بھی ہر دکھ درد میں آپ کو شریک کرتے۔ والدین کے خطوط حضور حافظ ملت کے نام بھی آتے اور وہ اپنی پریشانیاں آپ کے سامنے کھلے دل سے رکھا کرتے تھے گویا حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ہر طالب علم کے گھر کے ایک فرد تھے۔
حافظ ملت علیہ الرحمہ مشربا ایک صوفی تھے اور ہر صوبہ کا اپنا نظام تربیت ہوتا جس میں عفوو درگزر، رحم وکرم گشتری کا عنصر واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے۔ آپ کے نظام تربیت کا حال یہ ہے کہ بار بار غلطی کرنے والے طلبہ کو بھی معاف کردیتے اور اسے ایک شفیق باپ کی طرح سمجھا کر راہ راست پر لے آتے۔ دوسری طرف آپ اپنے شاگردوں کو علم کا پیکر اور تقوی وطہارت کاخوگر بنانے کے درپے ہوتے۔ ہر طالب علم پر جبرا اپنا نظریہ نہیں تھوپتے اور نہ ہی سب غیر درسی مصروفیات سے باز رہنے کی تلقین فرماتے۔ اگر کسی طالب علم کا رجحان ادب کی طرف دیکھتے تو اسے اسی میدان میں مہمیز کرتے۔ جس طالب کا طبعی میلان تقریر وخطابت کی طرف اس کی فکر کو اسی سمت میں پرواز کراتے۔۔ آپ کی بارگاہ سے جو خطباء نکلے ایک زمانہ گزر گیا آج بھی ان کی خطابت کا سکہ کھنک رہا ہے۔ تحقیق وجستجو کے رسیا ذہن کو نئی نئی دنیا بتاتے۔ استاذ گرامی خیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی کا طبعی رجحان عربی ادب کی طرف تھا، بعد فراغت بھی بذریعہ خط اس کی طرف راہ نمائی کرتے رہے۔ علامہ قمر الزماں اعظمی، خطیب الہند علامہ عبید اللہ خان اعظمی، رئیس القلم علامہ ارشد القادری، علامہ عبد المبین نعمانی، علامہ افتخار احمد قادری، علامہ یسن اختر مصباحی، شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں، ودیگر شہزادگان کچھوچھہ اور علامہ بدرالقادری، مشہور ناقد اور ادیب ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی یہ سب کے سب آپ کی بارگاہ کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں۔
دوران طالب علمی آپ شعر گوئی کو ناپسند فرماتے تھے لیکن علامہ بدر القادری کی شعری طبیعت اور انقلابی فکر کو دیکھ کر آپ نے ان کو شعر گوئی کی نہ صرف اجازت عطا فرمائی بلکہ عمدہ اشعار کہنے پر حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ حافظ ملت کے زمانے میں بہت سے موضوعات کا جامعہ میں بہتر انتظام نہیں تھا تو آپ نے اپنے مخصوص شاگردوں کو علم کی دوسری دنیا دیکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
حافظ ملت پتھر تراش کر ہیرے بناتے تھے لیکن آج کے مدارس کے اساتذہ کا حال یہ ہے کہ وہ ہیرے کو پٹک پٹک کر پتھر بناتے ہیں۔ طلبہ کی جن پریشانیوں پر آج کے زمانے میں تحقیق وریسرچ کے بعد جو نظریات سامنے آئے ہیں حضور حافظ ملت پچاس سال پہلے اپنے تربیتی نظام میں طلبہ کی ان نفسیاتی کیفیات کا خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک ذمہ دار، سمجھ دار اور ذی شعور اساتذہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو رٹو طوطا نہ بنائے بلکہ زمانے کے حساب سے فکری اڑان عطا کرے۔ دینی طالب علموں کو صرف کتاب کاآدمی نہیں بلکہ مرد میدان بنائے۔ اس کے اخلاق وکردار کو سنوارے۔ طلبہ کی زبان، اخلاق اور کردار اس وقت تک اچھے نہیں ہوسکتے جب تک اساتذہ کے کردار چندن کی طرح خوشبودار نہ ہوں۔
٭٭٭