کیا یوروپ بدل جائے گا؟

0

وقت یکساں نہیں رہتا، بدلتا رہتا ہے اور وقت کے بدلنے پر حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ دشمن دوست بن جاتے ہیں۔ کئی دوست مل کر ایک گروپ بنالیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا سکیں اور فائدہ اٹھاسکیں۔ پھر حالات بدلتے ہیں تو گروپ کا بکھراؤ شروع ہوجاتا ہے۔ یوروپی یونین کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ اس کی شروعات بہت اچھی تھی، مثالی تھی لیکن دنیا کے حالات اب بدل چکے ہیں۔ اب بیشتر ممالک توجہ اس بات پر دینے لگے ہیں کہ بدلتے حالات سے وہ راست طور پر کتنا فائدہ اٹھاسکتے ہیں، چنانچہ یوروپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، البتہ یہ علیحدگی یوروپی یونین کے بکھراؤ کی شروعات بن جائے تو اس پر بھی حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق، ’یوروپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر مدت ختم ہونے سے صرف6روز قبل دستخط کرکے برطانیہ نے اپنے ملک کے عوام کو نہ صرف کرسمس کا تحفہ دیا بلکہ ساتھ ساتھ یہ یقینی بھی بنایا کہ یوروپ کے دیگر ممالک کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات قائم رہیں۔‘ لیکن بریگزٹ سے پہلے برطانیہ کے یوروپی ممالک سے جو تعلقات تھے، کیا وہ اب بھی رہیں گے، یہ ایک سوال ہے اور اس کا جواب ابھی دینا ممکن نہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہی یہ بات سمجھ میں آپائے گی کہ برطانیہ کے یوروپی ممالک سے تعلقات کیسے رہتے ہیں اور یوروپی ملکوں کا مثالی اتحاد برقرار رہ پاتا ہے یا نہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں امریکہ کی دنیا کا واحد سپرپاور بننے کی چاہت اور سوویت یونین کی اسے ٹکر دینے کی خواہش ابھر کر سامنے آگئی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ سوویت یونین سے مقابلہ کیے بغیر وہ امریکہ کو دنیا کا واحد سپرپاور نہیں بناپائیں گے، چنانچہ ٹرومین نے سوویت یونین کی توسیع کو روکنے کی کوشش کی۔ ’مارشل پلان‘ اسی کوشش کا حصہ تھا اور پھر ناٹو بھی اسی کوشش کے تحت بنا۔ لیکن یوروپی لیڈروں کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ ’مارشل پلان‘ کا مقصد کیا تھا اور ’ناٹو‘ کی تشکیل کیوں ہوئی ہے، کیوں کہ ’ناٹو کے جواب میں سوویت یونین نے ’وارسا پیکٹ‘ متعارف کرادیا تھا۔ یوروپی ممالک باہمی اتحاد چاہتے ہیں، کیوں کہ دو عالمی جنگوں کا مرکز یوروپ ہی تھا اور ان جنگوں سے یوروپی ممالک سیکھ چکے تھے کہ جنگ سے اگر نقصان دونوں فریق کا ہوتا ہے تو اتحاد سے دونوں فریق فائدے میں رہتے ہیں، چنانچہ یوروپی ملکوں کا اتحاد یوروپی یونین کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، اس کی اہمیت بڑھتی چلی گئی مگر اب دنیا کے حالات پہلے جیسے نہیں رہ گئے ہیں اور بدلتے حالات کے اثرات یونینوں اور گروپوں پر پڑتے ہیں۔ یوروپی یونین بھی بدلتے حالات کے اثرات سے محفوظ نہیں۔
یونین میں رہنے کے کچھ فائدے ہوتے ہیں تو کچھ نقصان بھی ہوتے ہیں۔ ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ یونین میں رہتے ہوئے کوئی ملک بدلتے حالات کی مناسبت سے دیگر ملکوں سے اپنے طور پر تعلقات قائم نہیں کرسکتا، اس لیے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ برطانیہ اس وقت کیوں یوروپی یونین سے الگ ہوا۔ اب برطانیہ کی خارجہ پالیسی پوری طرح اس کی اپنی خارجہ پالیسی ہوگی، اس پر یوروپی یونین کا سایہ نہیں رہے گا۔ اسے ان ملکوں کے ساتھ رشتہ استوار کرتے یا مستحکم بناتے وقت سوچنا نہیں پڑے گا جن کے یوروپی یونین سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ یوروپی ممالک کی سیاست کو سمجھنا جتنا آسان رہا ہے، اب اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کچھ اور ممالک اگر یوروپی یونین میں شامل نہیں رہے اور اگر دنیا کے دیگر خطوں میں نئی یونینوں کی تشکیل عمل میں آگئی تو اس سے عالمی سیاست بدل جائے گی اور سیاسی منظرنامے میں جب تبدیلی آتی ہے تو اکثر ان ملکوں کے نقصان کا خدشہ رہتا ہے جن کی پوزیشن پہلے سے مستحکم رہتی ہے، اس لیے ’بریگزٹ‘ کو یوروپ کی تاریخ کا ہی نہیں، عالمی تاریخ کا بھی کوئی چھوٹا واقعہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس سے برطانیہ اور یوروپ کے بھی حالات بدلیں گے اور وہ ممالک بھی تبدیلی محسوس کریں گے جن کے برطانیہ اور یوروپی ملکوں سے تجارتی تعلقات ہیں۔
[email protected]

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS