بہار میں بے روزگاری ایک اہم ایشو

0

  ملک میں بے روزگاری کوئی نیا مسئلہ نہیں، بہت پرانا مسئلہ ہے۔بے روزگاری کی جو صورت حال ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔کسی نہ کسی شعبہ میں یا مجموعی طور پر ملک میں بے روزگاری کے تعلق سے رپورٹیں آتی رہتی ہیں جن پر کچھ دنوں تک سیاست ہوتی ہے پھر اسے فراموش کردیا جاتا ہے لیکن اس سے زمینی حقیقت نہیں بدلتی۔ہر الیکشن میں خواہ وہ اسمبلی ہو یا پارلیمانی،روزگار یا نوکری دینے کے وعدے انتخابی تقریروں اورمنشور کے ذریعہ کیے جاتے ہیں، ان پر کتنا عمل ہوتا ہے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ البتہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ کسی الیکشن میں سب سے بڑا ایشو بے روزگاری بن جائے۔بہار اسمبلی انتخابات میں جس طرح بے روزگاری بڑا ایشو بن کر ابھری ہے اورپارٹیوں واتحاد کے درمیان زیادہ سے زیادہ نوکری دینے کے وعدوں کا مقابلہ ہورہاہے،اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اب بے روزگاری کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔ پہلے الیکشن میں روزگار کے  رسمی وعدے کیے جاتے تھے۔ کس نے کیا وعدہ کیا، نہ تو اس کی کاٹ کی جاتی تھی، نہ اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اورنہ اس سے بڑھ چڑھ کر وعدہ کیا جاتا تھا۔لیکن بہار کے الیکشن میں یہ تینوں کام ہورہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیوں کو احساس ہورہا ہے کہ ریاست میں بے روزگاری کو ہلکے میں لینے سے الیکشن میں نقصان  ہوسکتا ہے۔
ریاست بہار بے روزگاری کی مثال دینے کے لیے بالکل ایک فٹ کیس ہے، وہاں کی جی ڈی پی میں ریاست سے باہر جاکر کمانے والوں کے ذریعہ بھیجے جانے والے پیسوں کا ایک تہائی حصہ ہوتا ہے۔لاک ڈائون میں روزگار ختم ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں بہار کے لوگ اپنے گھروں کو کسی طرح واپس تو ہوگئے لیکن وہاں بھی ان کو کوئی کام نہیں ملا بلکہ ان پر دوہری مصیبت یہ آئی کہ ریاست کے ایک بڑے حصے میں جولائی سے اکتوبر کے اوائل تک سیلاب رہا اورپوری آبادی اسی میں گھری رہی۔ خریف کی فصلیں برباد ہوگئیں، بہت سے گائوں شہر سے منقطع رہے۔اب بھی بہت سے علاقوں میں کھیت نہ سوکھنے کی وجہ سے ربیع کی کاشت کاری نہیں ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست کی ایک بڑی آبادی امسال مارچ کے اواخر سے ہی خالی بیٹھی ہے، ان کے پاس نہ تو وہاں کمانے کے لیے کوئی کام ہے اورنہ موجودہ حالات میں ریاست سے باہر ان کو کوئی کام مل سکتا ہے۔بہت سے کارخانے اورفیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، لاک ڈائون کے بعد جوفیکٹریاں شروع ہوئیں، زیادہ تر میں پہلے جیسا کام نہیں ہورہا ہے۔اس کی وجہ سے وہ لوگوںکو کام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ ریاست سے باہر گئے اورکام نہ ہونے کی وجہ سے گھر واپس آگئے۔راشٹریہ جنتادل کے لیڈر تیجسوی یادو نے اس صورت حال کو بہت پہلے بھانپ لیاتھا اورلوگوں کی نبض مزید ٹٹولنے کے لیے 5 ستمبر کو ایک تو بے روزگاری ہٹائو پورٹل لانچ کیا،دوسرے ٹول فری نمبر سے مسڈکال کرنے کا متبادل فراہم کیا اورجب پورٹل سے9.5 لاکھ اورمسڈکال سے 11.6 لاکھ بے روزگارنوجوانوں کی رائے اورپریشانیاں ان کے سامنے آئیں تو انہوں نے روزگار دینے کا اعلان اس انداز سے کیا جو ٹرینڈ کرنے لگا۔ انہوں نے 27 ستمبر کو ٹوئٹ کرکے اعلان کیا کہ پہلی کابینہ میں پہلے قلم سے وہ بہار کے 10 لاکھ نوجوانوں کو نوکری دیں گے۔کیسے دیں گے یہ بھی اسی دن پٹنہ کی پریس کانفرنس میں بھی بتادیا، جب انہوں نے کہا تھاکہ ریاست میں 4.5 لاکھ آسامیاں پہلے سے خالی ہیں اور5.5 لاکھ تقرریوں کی اشد ضرورت ہے۔بعد میں انہوں نے24 اکتوبر کو جاری انتخابی منشور میں بھی اسی کا ذکر کیا۔حیرت ہے کہ بی جے پی سے بڑھاکر وعدہ نہیں کیا۔
جنتادل متحدہ اوربی جے پی نے تیجسوی کے اس اعلان پرعمل کو ناممکن اور تنخواہ کہاں سے دیں گے، یہ سب بتانے کی پوری کوشش کی لیکن دونوں راشٹریہ جنتا دل کا تیر نشانہ پرلگنے سے نہیں روک سکیں۔ لوگ وعدے سے بہت خوش ہوئے اورنتیش سرکار کی پریشانی بڑھنے لگی۔ بی جے پی نے این ڈی اے کے انتخابی منشور میں اس سے بڑھ چڑھ کر اعلان کرکے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔تیجسوی کے 10 لاکھ نوکری کے جواب میں این ڈی اے نے 19 لاکھ روزگار دینے کاوعدہ کردیا۔غور طلب امر ہے کہ اتنی نوکریاں یا روزگار کے اتنے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے،عظیم اتحاد اوراین ڈی اے نے تقریباً ایک ہی بات کہی۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اتنے لوگوں کو نوکریاں دینے کی پوزیشن میں ریاست ہے جبکہ ابھی صورت حال یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کو ہرماہ پابندی سے تنخواہ نہیں مل پاتی۔جنتادل متحدہ اوربی جے پی نے تیجسوی کے اعلان کے بعد اس مسئلہ کو اٹھایا تھا جس کا واضح جواب تیجسوی نے نہیں دیا لیکن خود این ڈی اے نے بھی اپنے منشور میںاس کی وضاحت نہیں کی۔بہرحال الیکشن کے بعد لوگوں کو وعدے کے مطابق نوکریاں ملیں یا نہ ملیں لیکن بے روزگاری اس وقت ریاست میں سب سے بڑا انتخابی ایشو بن گئی ہے اوربعد میں یہیں سے شاید ملک کا سب سے بڑا ایشو بن جائے، کیونکہ جی ڈی پی کی حالت بہت بری ہے اورجی ڈی پی میں جتنی گراوٹ آئے گی، اتنی ہی بے روزگاری بڑھے گی تو ابھی اوربھی خطرناک صورت حال پیدا ہوگی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS