!یہ عالمی ایشو نہیں

0

 حکومتوں کے سارے فیصلے سبھی لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ کچھ فیصلوں پر آرا بٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ جنہیں فیصلے پسند آتے ہیں، وہ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ جنہیں فیصلے پسند نہیں آتے، وہ ان کے خلاف آرا کا اظہار قول و عمل سے کرتے ہیں، ان کے خلاف احتجاج و مظاہرے کرتے ہیں لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ لوگوں کو احتجاج و مظاہرے کا حق جمہوری ملک میں ہی حاصل ہوتا ہے۔ احتجاج و مظاہرے سے جمہوریت کی جڑیں کمزور نہیں، مضبوط ہوتی ہیں۔ اسی تناظر میں کسان آندولن کو دیکھا جانا چاہیے، یہ نہیں سوچا جانا چاہیے کہ حکومت کسان مخالف ہے، زرعی اصلاحات کے قوانین وہ سرمایہ کاروں کے مفاد کا خیال کر کے لائی ہے، کسانوں کے حوالے سے اس کی منشا ٹھیک نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے زرعی اصلاحات کے قوانین کو ’نئے امکانات کے دروازے‘ کھولنے والا بتایا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کسانوں کو شبہ ہے کہ ان نئے زرعی قوانین سے ان کا بھلا ہوگا۔اسی لیے سرکار سے وہ اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں جبکہ سرکار کسانوں کو یہ سمجھانے کے لیے کوشاں ہے کہ زرعی اصلاحات کے قوانین کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ سرکار اور کسانوں کے درمیان تعطل ختم کرنے کے لیے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کسان تنظیموں کے نمائندوں کو آج دوپہر 3 بجے مدعو کیا تھا۔رپورٹ کے مطابق، ’کسان لیڈروں کو بات چیت کے دوران مرکزی وزرا نے چائے کا آفر کیا، اسے کسان لیڈروں نے ٹھکرا دیا۔ کسانوں نے وزرا کو دلی کے بارڈر پر آنے اور جلیبی -لنگر کھانے کا آفر دیا۔ کسان لیڈر میٹنگ سے باہر آگئے۔‘
ادھر کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ بھارت میں حالات تشویش ناک ہیں۔ ان کے مطابق، ’کنیڈا ہمیشہ پرامن مظاہرے کے حق کی بات کرتا ہے لیکن بھارت میں جو ہو رہا ہے، اس پر وہاں کی سرکار سے چرچا کی گئی ہے۔‘ کنیڈا کے دیگر لیڈروں نے بھی کسان آندولن پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے علاوہ برطانوی لیڈروں نے بھی کسانوں پر ہوئی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ ان لیڈروں نے یہ سمجھنے کی بھول کی ہے کہ کسان آندولن کوئی عالمی ایشو نہیں ہے، یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ 
حکومت ہند نے کنیڈا کے وزیراعظم کے بیان کو ’نامناسب‘ قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شری واستو کے مطابق، ’سب سے بہتر یہ ہوگا کہ سفارتی مکالمے کو سیاسی مقصد سے غلط طریقے سے پیش نہیں کیا جائے۔‘ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کے کسان آندولن پر اپنے تاثرات کا اظہار گرو پرب کے موقع پر کیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس موقع پر ٹروڈو نے یوں ہی کسان آندولن پر تاثرات کا اظہار نہیں کیا۔ پنجاب سے جاکر کنیڈا میں بسے سکھوں کی اہمیت کے مدنظر ہی انہوں نے کسان آندولن کو نظر انداز نہیں کیا۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، کسان آندولن پر کنیڈا کے وزیراعظم کا بیان عالمی میڈیا کی توجہ کھینچنے میں اگر کامیاب رہا تو کچھ اور لیڈروں کے بیانات سامنے آنے کا اندیشہ رہے گا، چنانچہ کسانوں کو منانے کی کوشش تیز کر دینی چاہیے، پولیس کو یہ ہدایت دی جانی چاہیے کہ وہ لاٹھی بھانجنے میں جلد بازی نہ کرے۔ کئی بار طاقت دکھانے سے حالات اور بگڑتے ہیں، سنبھلتے نہیں ہیں اور اس وقت حالات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ عام دور نہیں ہے۔ کورونا نے تباہی مچا رکھی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ کورونا سے ملک کے لوگوں کو کب نجات ملے گی۔ دوسری طرف مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اقتصادی شرح نمو صفر سے 23.9 فیصد کم رہی تھی، مختلف شعبوں کی حالت خستہ تھی تو اس وقت زراعت کی 3.4 فیصد کی شرح نمو کسی حد تک راحت افزا تھی۔ اس سے یہ ہمت بندھی تھی کہ زراعت پر اگر کچھ زیادہ توجہ دی گئی تو وطن عزیز کی اقتصادی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا کی وجہ سے جو لوگ شہروں کو چھوڑ کر گاؤں اور قصبوں میں رہنے کے لیے گئے ہیں، زراعت پر خصوصی توجہ دینے سے ان کے روزگار کا انتظام کرنا آسان ہوگا مگر زرعی اصلاحات کے قوانین سے کسان دلبرداشتہ ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مستقبل میں انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے روشن مستقبل کے لیے ہی یہ قوانین متعارف کرائے گئے ہیں لیکن یہ بات حکومت کو سمجھنی ہوگی کہ اگر ایک کام کے کرنے میں منشا اچھی ہو مگر اس کے حوالے سے لوگوں کی بڑی تعداد غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے تو اس پر سوچنا چاہیے۔ حکومت کسانوں کا ہی بھلا کرنا چاہتی ہے تو پھر کسانوں کا اعتماد جیت کر ہی اسے کچھ کرنا چاہیے۔ یہی ملک کے حق میں بھی ہے، حکومت اور کسانوں کے بھی حق میں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS