ہوس زر اور کورونا کا ٹیکہ

0

کورونا وائرس کی عالمی وبا دنیا بھر میںشدیدتربحران کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ عالمی معیشت کی غرق ہورہی کشتی کے کھیون ہاراس بحران سے نکلنے کیلئے طرح طرح کی قلابازیاں کھارہے ہیں ۔ کہیں معیشت کی سوکھی رگوں کو ہرا کرنے کیلئے اربوں ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج دیاجارہاہے تو کہیں20لاکھ کروڑ روپے کے مجموعہ مراعات کا اعلانِ محض سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ان سب کے درمیان آبرو باختہ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کی لاش سے منافع کشید کرنے کی نئی ترکیبیں وضع کرنے میں مشغول ہے۔ امیر اور دولت مند کہے جانے والے ممالک کورونا وائرس کی دوائوں کو پیٹنٹ کرانے کی کوشش میں ہیں تاکہ ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ان کے ہوس زر کوشادکا م کرسکے۔ اگرا یسا ہوگیا تو دنیا کی ایک تہائی آبادی موت کے منھ میں چلی جائے گی اور کورونا سے متاثر ہونے والے غریبوں کی لاشو ں کا سلسلہ آسمان تک دراز ہوجائے گا۔ غریبوں کے مشکل کشا کہے جانے والے نوبل انعام یافتہ بینکار بنگلہ دیش کے ڈاکٹر پروفیسر محمد یونس نے جمعہ کو ہندوستان کی نامور یونیورسٹی سینٹ زیویرس یونیورسٹی کولکاتا میں ایک بین الاقوامی ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر کورونا کا ٹیکہ عالمی سطح پر دستیاب نہیں کرایا جاتا ہے تو بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہے ۔کورونا کے ٹیکہ کو پیٹنٹ کرائے جانے کو خلاف انسانیت قرار دیتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ٹیکہ کا پیٹنٹ کسی ایک کو نہیں کرانا چاہیے، اگر کورونا کا ٹیکہ کوئی ایک کمپنی پیٹنٹ کرالیتی ہے تو دوسری کمپنیوں کو اس کا لائسنس نہیں مل پائے گا جس کی وجہ سے ٹیکہ بنانے میںدشواری ہوگی اور ٹیکہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے دنیا کی بہت بڑی آبادی موت کے منھ میں جاسکتی ہے ۔بہت سارے امیر ممالک کورونا کے ٹیکہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے ویکسین کی تیاری میں شامل دوا ساز کمپنیوں کو خطیر رقم دے  رہے ہیں۔ ان کمپنیوں کا مقصود صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اور انہیں غریب ممالک کی کوئی فکر نہیں ہے۔ محمد یونس کا کہنا ہے کہ پولیو کا ٹیکہ پوری دنیا میں آسانی سے دستیاب کرایا گیا تھاجس کی وجہ سے دنیا اب اس مرض سے نجات حاصل کرچکی ہے۔اسی طرح کورونا کے ٹیکہ کو بھی کسی ایک کمپنی کے حق میں پیٹنٹ نہیں کیا جانا چاہیے ۔ 
گزرنے والے مئی کے مہینہ میں عالمی صحت تنظیم نے اس خطرہ کا ادراک کرتے ہوئے ایک ’ پیٹنٹ پول‘تشکیل دیاتھاتاکہ کورونا کے ٹیکہ کی جستجو اور ایجاد میں مصروف کار سائنس داںاور ڈاکٹر اپنی معلومات کا تبادلہ کرسکیں اورایک دوسرے کی محنت سے استفادہ کرتے ہوئے ٹیکہ کی دریافت جلد ازجلد تکمیل تک پہنچائی جاسکے ۔ عالمی صحت تنظیم کے اس ’ پیٹنٹ پول‘ معاہدہ پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کردیے ہیں لیکن دنیا کی بڑی دواساز کمپنیوں اور امریکہ بہادر نے اب تک اس پر دستخط نہیں کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور انجینئروں کے ایک گرو پ نے بھی اس طرح کا پیٹنٹ پول بنایا ہے جس میں امازون، فیس بک، مائیکرو سافٹ شامل ہونے کیلئے تیار ہوگئی ہیں لیکن اس میں بھی دوا بنانے والی بڑی کمپنیاں شامل نہیں ہوئی ہیں ۔دواساز کمپنیوں کی عدم شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ یہ دوا بنانے سے پہلے ہی اپنی انفرادی ملکیت پختہ کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام نے پہلے ہی غریب غربا کو دیوار سے لگا رکھا ہے۔ غریب ملکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا بحران کے نام پر بھی کروڑوں افراد بے روزگار اور محنت کش اپنی روزی روٹی سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔افراط زر کے شکار جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک ’ایک لاکھ ‘کی مالیت کے کرنسی نوٹ جاری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ غریب ملکوں پر بحیثیت مجموعی محرومی اور تکلیفوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ مسلط ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اس مرض الموت کی دوا پر بھی تسلط جمانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ یہ کام دنیا کاکوئی بھی ملک کرے، وہ عالم انسانیت کیلئے خطرناک اور جنگوں سے زیادہ مضر اور مہلک ثابت ہوگا۔
اگر کورونا کا ممکنہ ٹیکہ کسی ایک ملک یا ایک کمپنی کے حق میں پیٹنٹ ہوجاتا ہے تو انسانیت کے خلاف بہت بڑاجرم ہوگا اور محروموں و مجبور وں کیلئے قتل کا سامان بن جائے گا ۔ محمد یونس دنیا کو اسی غارت گری اور ہلاکت سے بچانے کی کوشش میں ہیں ۔ا ن کی بروقت اپیل پر عالمی برادری کو کان دھرنا چاہیے ۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS