ہندوستانیوں کیلئے لائف لائن

0

ٹرینیں ہندوستانیوں کیلئے لائف لائن ہیں۔ 1853 میں بوری بندر، بمبئی سے تھانے کے درمیان انگریزوں نے ہندوستان کی پہلی ٹرین چلائی تھی تو شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ آنے والے وقت میں ہندوستانیوں کے لیے ٹرینیں اتنی اہمیت کی حامل ہوجائیں گی۔ انگریزوں نے ریلوے لائنیں اپنی آسانی کے لیے بچھائی تھیں مگر انہیں لائنوں نے ہندوستان کے لوگوں کو جوڑنے کا کام کیااور ان کی جدوجہد آزادی میں اور شدت آگئی۔ آخر ہندوستان آزاد ہو گیا۔ اس کے بعد سے آج تک ٹرینوں نے لوگوں کی آمد ورفت کو آسان سے آسان تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہیمگر آج ریلوے کو اپنے خرچ نکالنے کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے۔ سی اے جی کی تازہ آڈٹ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مالی سال 2019 میں ریلوے کو جتنی کمائی نہیں ہوئی، اس سے زیادہ اس نے خرچ کیا۔ مالی سال 2019 میں ریلوے نے 100 روپے کمانے کے لیے 97.29روپے خرچ کیے یعنی یہ اس کی آپریٹنگ شرح ہے مگر سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں یہ پایا کہ اگلے مالی سال کے لیے ادائیگی اس سال کی آمدنی کا حصہ بناکر دکھائی گئی ہے، ’رپورٹ کے مطابق، ریلوے نے این ٹی پی سی اور کان کور سے موصولہ 8,351 کروڑ روپے کے ایڈوانس پے منٹ نہیں دکھائے ہوتے تو آپریٹنگ شرح 97.29 فیصد نہیں، 101.77 فیصد ہوتی۔‘ رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2015 سے 2019 کے درمیان 17 میں سے 9 زون کی اوسط آپریٹنگ شرح 100 فیصد تھی جبکہ 4کی 150 فیصد تھی۔‘ یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی کہ 100 روپے کمانے کے لیے 150روپے خرچ کرنے پڑے، یہ جاننا ضروری ہے۔ لالوپرساد یادو وزیر ریل تھے تو انڈین ریلویز کی کمائی کے بڑے چرچے ہوا کرتے تھے۔ لالو نے اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جوڑنے اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی کوشش کی تھی۔ اسی کوشش کے تحت ’غریب رتھ‘ جیسی سستی اے سی ٹرین چلائی گئی تھی، جنرل کلاس کے ڈبوں کی سیٹوں میں گدے لگائے گئے تھے۔ ریلوے کو روزگار کا وسیلہ بنانے کے لیے کولہڑ میں چائے کی ابتدا کی گئی تھی۔ اس سے بڑی تعداد میں کمہاروں کو روزگار ملا اور کئی لوگوں نے  مٹی کے برتن کی اہمیت سمجھی۔ لالو پرساد نے مال ڈھلائی پر بھی خصوصی توجہ دی تھی۔ اس وقت یہ امید بندھی تھی کہ انڈین ریلویز کی آمدنی بڑھے گی مگر حالت آج یہ ہے کہ یہ تشویشناک حالت میں پہنچ چکی ہے۔
ادھر کے برسوں میں اچھی سڑکوں کے بننے سے آمد و رفت کے لیے ٹرینوں پر لوگوں کا انحصار کم ہوا ہے مگر آج بھی دہلی سے دربھنگہ کے لیے بس کا کرایہ اوسطاً 2000 پڑتا ہے، تہواروں کے سیزن میں یہ کرایہ اور بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف دہلی سے دربھنگہ کے لیے سپرفاسٹ ٹرین کے جنرل کلاس کا کرایہ 295روپے، سلیپر کلاس کا کرایہ 560 روپے اور اے سی تھرڈ کا کرایہ1470 روپے ہے۔ کرایوں کے فرق سے ٹرین اور بس کے سفر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہر برس بسوں میں اضافے کے باوجود ٹرینوں میں بھیڑ کے کم نہ ہونے کی معمولی وجہ نہیں ہے، اس پر توجہ دینی ہوگی۔ 2011 میں ہندوستان کے 60 فیصد لوگوں کی کمائی 3.20 ڈالر روزانہ تھی۔ پچھلے 9 سال میں حالات میں بہتری آئی ہے لیکن آج بھی روزانہ 250 روپے نہ کمانے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، وہ 6 ماہ میں ایک بار گھر جانے اور آنے کے لیے 16 دن کی کمائی خرچ نہیں کر سکتے، اس لیے ٹرینوں کے جنرل ڈبے میں بھیڑ کا حصہ بن جانا گوارہ کر لیتے ہیں۔
ایک عجیب و غریب مشورہ ملک میں ریلوے ملازمین کے سب سے بڑے ایسو سی ایشن آل انڈیا ریلوے مینس فیڈریشن نے وزیر ریل پیوش گوئل کو یہ دیا ہے کہ خرچوں میں کٹوتی کے لیے ٹرینوں سے پینٹری کار ہٹا دینی چاہیے اور ان کی جگہ پر بوگی لگا دینی چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسو سی ایشن نے یہ مشورہ مسافروں کی سہولتوں کے مدنظر نہیں دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈبروگڑھ سے 4247 کلومیٹر چل کر کنیا کماری جانے والی ’وویک ایکسپریس‘ اور ترواننت پورم سے سے 3932 کلومیٹر کی مسافت طے کرکے سلچر جانے والی ’سلچر سپرفاسٹ ایکسپریس‘ میں پینٹری کار ہونی چاہیے یا نہیں۔ ٹرینوں سے پینٹری کار ہٹا دینا یا تکیے، گدے ہٹا دینا، مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ریلوے کی گھٹتی آمدنی کی اصل وجوہات پر توجہ دی جانی چاہیے۔ نیٹ ورک کے لحاظ سے انڈین ریلویز کا شمار دنیا کے 5 بڑے ریلویز میں ہوتا ہے، 12.27 لاکھ ملازمین والے ریلوے کا یوں خستہ حال ہوتے چلاجانا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ہندوستانیوں کی آمد و رفت کے لیے واقعی بے حد بے حد اہم ہے، اسے وقت رہتے محسوس کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں کارگر عملی اقدامات کرنے پڑیں گے تبھی حالات میں تبدیلی آئے گی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS