مزدورقوانین میں اصلاح

0

ظلم  جبر، ناخواندگی، بھکمری، بے روزگاری اور لاچاری کا ایندھن بننے والے ہندوستانی محنت کشوں کے اصلاح احوال کے بلند بانگ دعوے کے ساتھ حکومت ایسے ’ اصلاحی اقدامات ‘ کررہی ہے جس پر چہار جانب سے تنقیص اور تنقید کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے باوجود حکومت تین ایسے بل پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی جس کے بارے میں اس کادعویٰ ہے کہ اس سے مزدوروں کے حقوق کو تحفظ ملے گا اور ملک میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔راجیہ سبھا سے بدھ کوپاس کیے جانے والے ان تینوں بل پیشہ ورانہ حفاظت، صحت اور ورکنگ کوڈ 2020، صنعتی تعلقات کوڈ 2020 اور سماجی تحفظ کوڈ 2020 (صنعتی تعلقات کوڈ اور سماجی تحفظ کوڈ) کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان سے ہونے والی اصلاحات سے صنعتی ورکروں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جاسکے گا اور اقتصادی نمو کو فروغ ملے گا۔ نیا لیبرقانون کم سے کم اجرت ا ور اجرت کی بروقت ا دائیگی،ورکروں کی پیشہ ورانہ حفاظت اور بہتر ماحول میں کام کو یقینی بنائے گا۔لیکن ملک کی حزب اختلاف اور مزدوریونینیں یک زبان ہوکر اسے مزدور دشمن قرار دے رہی ہیں۔ معترضین کا کہنا ہے کہ لیبر قوانین میں یہ اصلاحات مزدوروں کے تابوت میں آخری کیل کی طرح ہیں۔ ان نام نہاد اصلاحات کے تمام ثمرات سرمایہ داروں کی جھولی میں جائیں گے اور مزدوروں کے سامنے چھنٹائی اور فاقہ کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ ان قوانین میں تبدیلی سے کمپنیوں کو بند کرنے میں رکاوٹوں کا خاتمہ ہوگا اور 300 تک ملازمین رکھنے والی کمپنیوں کو سرکاری منظوری کے بغیر ملازمین کو ہٹانے کی اجازت ہوگی۔ یعنی جس کمپنی میں 300 تک ملازمین کام کریں گے، وہ جب چاہے ملازمین کو نکال سکتی ہے۔ 
ایک ایسے وقت میں جب معاشی بدحالی اور پھر لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں مزدوروں کی حالت پہلے سے ہی ابتر ہے اس طرح کے قوانین مزدوروں کے حقوق کو مزید کمزور کریں گے۔ یونینوں کا دعویٰ ہے کہ ان تینوں بلوں میں ان کی کسی تجویز کو شامل نہیں کیاگیا ہے۔یہ بل غیر منظم شعبے کے ایک بڑے حصہ،مہاجر مزدوروں، خود روزگار سے وابستہ افراد، گھریلو ملازمین اور دیگر کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔بل کے مشمولات کا بہ نظرغائر جائزہ لینے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مزدوروں کی بہبود کیلئے ایوان سے پاس کیے گئے ان تین بلوں میں سے ایک سماجی تحفظ کوڈ 2020(صنعتی تعلقات کوڈ اور سماجی تحفظ کوڈ) کی موجودہ شکل ملک کے کروڑوں مزدوروں کو معاشرتی تحفظ نہیں فراہم کررہی ہے۔اس بل میں تعمیراتی کام سے وابستہ لاکھوں ایسے مزدورجو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں انہیں باہر رکھاگیا ہے۔ ایسے ادارے جہاں20یا اس سے زیادہ ملازمین برسرکار ہیں، انہیں پرویڈنٹ فنڈ کا حق د ار سمجھاگیا ہے جب کہ مائیکرو، اسمال اور کاٹج انڈسٹریز سے وابستہ کروڑوں مزدوراس دائرہ سے باہر ہیں۔سماجی تحفظ کے نام پر پیش اور پاس کرایا گیا یہ بل جو صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد ایک دو دنوں میں قانونی شکل اختیار کرلے گا جملہ مزدور برادری کے سماجی اور معاشرتی تحفظ میں صریحاً ناکام نظر آ رہا ہے۔ایسے میں مزدوروں کی تشویش کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا ہے۔
کورونا کے ساتھ آنے والے سنگین بحران کے اس دورمیں مزدوروں کی ابترصورتحال کے مدنظر حکومت کو سماجی اور معاشرتی تحفظ کو یقینی بناناچاہیے تھا لیکن ایوان سے پاس ہونے والے ان بلوں میں اس کا کوئی خیال نہیں رکھاگیا ہے۔ بین ریاستی مزدوروں یعنی ایک ریاست سے ہجرت کرکے دوسری ریاست میں کام کرنے والے مزدوروںکی لاک ڈائون کے دوران جو حالت سامنے آئی تھی اس کے بعد لگ رہا تھا کہ حکومت مزدوروںکے اس طبقہ کے سلسلے میں بہتر قدم اٹھائے گی لیکن یہ اصلاحی بل تارکین وطن مزدوروں کیلئے بھی تازیانہ ہی بنا ہے۔موجودہ ریاستی تارکین وطن ملازمین (ملازمت اور خدمت کی شرائط کا ضابطہ) ایکٹ، 1979پانچ یا اس سے زیادہ تارکین وطن کارکن ہونے کی صورت میں نافذالعمل ہے لیکن نئی اصلاحات میں اس کا دائرہ5کارکنوں سے بڑھا کر 10 کردیا گیا ہے یعنی 10 تارکین وطن مزدور ہونے کی صورت میں ہی یہ قانون نافذ ہوگا۔اس ’اصلاح‘ سے 10سے کم چھوٹی چھوٹی ہزاروں ٹکریوں میں ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کو اب اس قانون کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ درست ہے کہ پرانے لیبر قوانین اصلاح طلب تھے اوران کی اصلاح کے بغیر ملکی معیشت کے پہیہ کو رواں رکھنے میں دشواری کا سامنا تھا۔مزدور یونینوں کا بھی مطالبہ تھا کہ ان میں ترمیم اور اصلاح کی جائے لیکن موجودہ اصلاح کی توقع کسی نے نہیں کی تھی۔ 
اس سے قبل بھی اصلاحات کا ڈول ڈالاگیا تھامگر تمام فریقین کے مفادات کا تحفظ نہ ہوپانے کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ پائی تھی۔ لیکن حکومت نے اچانک یہ بل پاس کراکر معترضین کے اس موقف کو زبان دے دی ہے کہ اسے مزدوروں سے زیادہ صنعت کاروں کے مفاد کا تحفظ عزیز ہے۔ ملک میں کروڑوں مزدورو ں کے مفاد کو نظر انداز کرکے چند ایک سرمایہ داروں کے مفاد کیلئے قانون میں ترمیم ’اصلاح‘ نہیں کہی جاسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بل میں مزدور یونینوں کی مناسب تجاویز کو بھی شامل کرے اور مزدوروں کے خدشات و تحفظات کو دور کرنے کی سبیل نکالے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS