سود پر سود

0

کورونا وائرس  کے حملے، غلط حکمت عملی اور حکمرانوں کی سرمایہ دارانہ دوستی نے ملکی معیشت کو پستی کی ایسی کھائی میں گرادیا ہے جہاں سے اگلے چند برسوں میں نکلنا مشکل نظرآرہاہے۔ 20لاکھ کروڑ روپے کے مجموعہ مراعات کاشادیانہ بجانے اور ملک میں معاشی ترقی اور تعمیر کے گیت گانے والی مرکزی حکومت اب تمام معاشی بحران دھیرے دھیرے کرکے عوام کے نازک کندھوں پر منتقل کررہی ہے۔ قرضوں کی قسط کی ادائیگی کے سلسلے میں دی گئی مہلت کی مدت پربھی سود کی وصولی کا معاملہ ان میں سے ایک ہے۔ حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کی آڑ میں بینکوںکو عوام کا خون نچوڑنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے عوام کی آمدنی کے ذرائع پر انتہائی خطرناک اثر پڑنے کی وجہ سے ریزروبینک آف انڈیا (آربی آئی) نے بینکوں سے قرض لینے والوں کیلئے قسطوں کی ادائیگی میں مہلت کا اعلان کرکے انہیں راحت پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اپنے حکم نامہ میں آربی آئی نے کہا تھا کہ اگر قرض دار کے پاس رقم نہیں ہے اور وہ ماہانہ قسط ادانہیں کرسکتے ہیں تو انہیں مارچ سے اگست تک کل6مہینے کیلئے قسط کی ادائیگی سے مہلت دی جاتی ہے۔ آر بی آئی نے یہ مہلت کمپنیوں کے ساتھ ساتھ عام قرض لینے والوں کو بھی دی تھی۔ بینکوں نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے گاہکوں کو قسطوں کی ادائیگی میں مہلت تو دی مگران قسطوں پربھی سود لینا شروع کردیا۔ یعنی وہ قسطیں سود سمیت گاہک کے زر اصل میں جڑتی چلی گئیں۔ اس طرح ہر مہینہ سود پر بھی سود جڑتا چلا جا رہا ہے۔اس سلسلہ میں گاہکوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی کہ مہلت کے بجائے بینک ان کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، اس پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور آر بی آئی کو اپنا موقف رکھنے کو کہاتھا۔حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل نے عدالت میں جو موقف رکھا ہے، اسے عدالت نے مسترد کردیاہے اور کہا ہے کہ جب تک معاملے پر فیصلہ نہیں ہوجاتا ہے تب تک بینک کسی بھی قرض کو این پی اے نہیں کرسکتے ہیں۔سپریم کورٹ نے معاملے کی اگلی سماعت کیلئے10ستمبر کی تاریخ طے کی ہے۔ 
قرض کی قسطوں پر سود وصولی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں پر عدالت کا رویہ بالکل درست ہے۔ عدالت کے سامنے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے دلیل دی تھی کہ جب بینک اپنے گاہکوں کی جمع رقم پر سود پرسود دیتے ہیں تو انہیں اپنی رقم سے ملنے والے سود پر سود وصول کرنے کا حق کیوں نہیں ملنا چاہیے۔اگر وہ سود معاف کریں گے تو انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔سالیسٹر جنرل کی یہ دلیل طرفہ تماشا ہی کہی جاسکتی ہے۔ عوام سے نچوڑی گئی ٹیکسوں کی رقم سے بینکوں کیلئے اربوں روپے کے بیل آئوٹ پیکیج کا اعلان کرنے والی حکومت غریب اور مقروض عوام سے سود پر بھی سود وصولی کو قانونی قراردے رہی ہے۔حالانکہ اس معاملے میں سب کو امید تھی کہ آر بی آئی مداخلت کرتے ہوئے بینکوں کو واضح ہدایت دے گا مگر اس نے اس کا فیصلہ بینکوں پر چھوڑ دیا۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے آر بی آئی کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بینکوں کی آڑ لے کر ذمہ داریوں سے بچ نہیں سکتا ہے، اسے بینکوں کو ہدایت دینی چاہیے۔ جب بینک ہزاروں کروڑ روپے کا این پی اے برداشت کرسکتے ہیں تو کچھ مہینہ کیلئے عام شہریوں کو قسطوں کی ادائیگی کیلئے مہلت کی پابندی کرنے میں ا ن پرکون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ کورونا بحران میں صرف ہندوستان نے یہ راحت اسکیم شروع کی تھی۔امریکہ، آسٹریلیا اور یوروپ کے دیگر ممالک میں بھی بینکوں نے قرض لینے والوں کو قرض معطلی کی راحت دی تھی۔ یوروپ کے بیشتر ممالک نے اپنے شہریوں کو 3 مہینوں کیلئے قرض ادائیگی سے استثنیٰ دیا تھا۔ امریکہ اور آسٹریلیا میں یہ اسکیم 6 ماہ سے ایک سال کیلئے نافذ کی گئی ہے۔ افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں حکومت کے ساتھ ساتھ بینکوں نے بھی لوگوں کی مالی امداد کی تھی۔ مگر ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے بینک اس راحت اسکیم کو بھی قرض داروں کیلئے عذاب بنارہے ہیں اور یہ سب حکومت کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ لوگوں کو یہ امید تھی کہ حکومت انہیں راحت پہنچائے گی لیکن سالیسٹر جنرل کے استدلال نے حکومتی رویہ واضح کردیا ہے۔ اب سب کی نگاہیں 10ستمبر کو ہونے والی سماعت پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کیا ادائیگی کی مہلت بڑھائے جانے کے ساتھ سود سے راحت ملے گی ؟
حقیقت حال تو یہ ہے کہ اگر یہ راحت مل بھی جاتی ہے تو عوام کی زندگی میں اب بہار کاکوئی جھونکا آنے والا نہیں ہے۔ ایک جانب کورونا کا حملہ شدید ہوتا جارہا ہے، روزانہ 80-85ہزار کے قریب کیس رجسٹرڈ ہورہے ہیں تودوسری جانب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد روزگار سے بھی محروم ہورہے ہیں۔ عوام کی آمدنی ختم یا محدود تر ہوتی جارہی ہے۔اس شدید ترین بحرانی کیفیت میں بھی حکومت نے عوامی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کردیا ہے جس سے مزید لاکھوںافراد کے روزگارپر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔آنے والے عرصے میں عوام کے حالات زندگی میں کسی بھی قسم کی بہتری ممکن نظرنہیں آرہی ہے بلکہ جو اشارے ہیں، ان سے خدشہ ہے کہ حالات مزید بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔ 
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS