تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی بہار میں اسمبلی الیکشن کا رسمی طور پر اعلان ہوگیا ہے۔ کورونا انفیکشن کے سبب الیکشن میں شش و پنج ہونے سے متعلق جو اندیشہ تھا، وہ اس اعلان کے ساتھ اب دور ہوگیا ہے۔ سب ٹھیک رہا تو تین مراحل کا الیکشن اکتوبر کے آخری ہفتہ سے شروع ہوکر نومبر کے پہلے سات دن میں مکمل ہوجائے گا اور 10نومبر تک مینڈیٹ سامنے آجائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے دنیا کے 70ممالک میں الیکشن ٹلنے کا حوالہ دیتے ہوئے بہار الیکشن کے انعقاد کو بیشک نیونارمل بتایا ہو، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سب سے دلچسپ سیاسی مہابھارت میں گٹھ بندھنوں کی تصویر بننے-بگڑنے کے علاوہ کچھ بھی نیا نظر نہیں آرہا ہے۔ انتخابی سیزن میں پالا بدلنے کا کھیل پہلے ہی شروع ہوگیا تھا،اب انتخابی پروگرام پر مہر لگنے کے بعد ’بھگدڑ‘ مزید تیز ہونے کا امکان ہے۔
وزیراعلیٰ نتیش کمار پرانے اختلافات بھلا کر اپنی پرانی شبیہ اور پرانے ساتھی کے ساتھ فی الحال مضبوطی سے ایک پالے میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ سال 2015میں وزیراعظم کے ڈی این اے والے طنز سے متعلق نتیش کو اب کوئی رنج نہیں ہے۔ لہٰذا سشاسن بابو اور بی جے پی اس بار پھر ساتھ ہیں، لیکن لوک جن شکتی پارٹی کی قیادت کی ’خواہشات‘ نے این ڈی اے کے سامنے چراغ تلے اندھیرا والے حالات کھڑے کردیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھی جارہی ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہر مرکزی حکومت میں وزیر رہے رام ولاس پاسوان اپنے بیٹے چراغ پاسوان کے لیے اسی طرح کا ’استحکام‘ بہار میں تلاش کررہے ہیں۔ بیٹے کو پارٹی کی گدی سونپنے کے بعد اب وہ اسے بہار کے اقتدار کا کنگ بنانے کی حسرت پالے بیٹھے ہیں، کنگ نہیں تو کم سے کم کنگ میکر ہی بن جائے۔ پاسوان جانتے ہیں کہ 25-30سیٹوں پر الیکشن لڑکر تو یہ خواب پورا ہونے سے رہا، اس کے لیے ریاست میں ایل جے پی کی زمین کو مزید توسیع دینے کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن نتیش بھی سیاست کے پرانے چاول ہیں اور پاسوان کی چال کو پہلے ہی تاڑ چکے ہیں۔ اسی لیے وہ بھی ایل جے پی کو زیادہ سیٹیں نہیں دینے کی ضد پر قائم ہیں۔
رہی بات بی جے پی کی، تو اس تنازع پر اس کی خاموشی میں بھی کئی تھیوری کام کررہی ہے۔ جے ڈی (یو) اور بی جے پی اوپر سے بھلے ساتھ نظر آتے ہوں، بھلے بی جے پی نتیش کو وزیراعلیٰ کے عہدہ کا چہرہ بتا رہی ہو، لیکن دونوں کے آپسی رشتے کبھی آسان نظر نہیں آئے ہیں۔ آرٹیکل 370، رام مندر اور شہریت قانون جیسے ایشوز پر دونوں کے بنیادی اختلافات ہیں اور نتیش کئی مواقع پر نظریہ سے سمجھوتا نہیں کرنے کی بات کہہ چکے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی بھی چاہے گی کہ بہار میں چراغ کا دبدبہ بڑھے، جس سے انہیں نتیش پر نکیل کی طرح استعمال کیا جاسکے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حال کے دنوں میں چراغ کی سیاسی حیثیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ایل جے پی کو نئی پہچان دینے کا کام کیا ہے۔ ان کے والد کے زمانہ میں ایل جے پی کو صرف دلتوں کی پارٹی کہا جاتا تھا، لیکن علاقہ سے لے کر قومی ایشوز پر بے باک رائے رکھ کر چراغ تیزطرار نوجوان لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ اس معاملہ میں وہ تیجسوی پر بیس پڑتے ہیں۔ لیکن چراغ اس سے مطمئن نہیں ہیں، وہ نتیش سے بھی آگے جاناچاہتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ اس کے لیے چراغ اسی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں جس پر 15سال پہلے ان کے والد چلے تھے۔
2005کے اسمبلی الیکشن میں دلت، مسلم اور اگڑے بھومیہاروں کی صف بندی کرکے ایل جے پی نے 29سیٹیں جیت کر اقتدار کی چابی بھی حاصل کرلی تھی۔ لیکن مسلم وزیراعلیٰ بنانے کی ضد پر اڑے رہ کر سینئر پاسوان نے تب موقع گنوا دیا تھا۔ جونیئر پاسوان کو یہ الیکشن اس ’غلطی‘ کی تلافی کا موقع نظر آرہا ہے۔
ویسے بھی یہ کوئی پہلا موقع تو ہوگا نہیں، جب ایل جے پی این ڈی اے سے باہر نکل کر الیکشن لڑے گی۔ ابھی حال میں وہ جھارکھنڈ میں اکیلے دم پر الیکشن لڑچکی ہے۔ ایل جے پی کا منصبوبہ ہے کہ وہ بہار میں 143سیٹوں پر الیکشن لڑے اور یہ سبھی وہ سیٹیں ہوں گی جن پر جے ڈی یو کا امیدوار کھڑا ہوگا یعنی ایل جے پی بی جے پی کے خلاف اپنا امیدوار نہیں اُتارے گی۔ ایسی صورت میں جو نقصان ہوگا وہ جے ڈی یو کا ہوگا اور بی جے پی کو ’چھوٹے بھائی‘ والی مجبوری سے چھٹکارا مل جائے گا۔
دوسری طرف نتیش بھی ایکٹیو ہیں۔ ایل جے پی کے مول-بھاؤ کو محدود رکھنے کے ساتھ ہی اس کے این ڈی اے چھوڑنے تک کی صورت کے لیے ڈیمیج کنٹرول کی انہوں نے پہلے سے ہی تیاری کرلی ہے۔ دلت لیڈر اور وزیراعلیٰ رہ چکے جیتن رام مانجھی کی این ڈی اے میں اینٹری کرواکر نتیش نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی کرسی پر دعویٰ ٹھوک رہے نوجوان لیڈروں چراغ پاسوان اور تیجسوی یادو کی راہ میں انہوں نے ایک چال سے سیاسی زلزلہ لادیا ہے۔ آنے والے دنوں میں نتیش کی اس ٹیم میں اپیندر کشواہا بھی نئے کردار کے طور پر نظر آئیں تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔
ایسے میں چراغ پاسوان ’ابھی نہیں، تو کبھی نہیں‘ والی ضد کو کتنا آگے لے کر جاپائیں گے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ لیکن تیجسوی یادو کے سامنے تو اس الیکشن میں وجود کا بحران ہے۔ کانگریس کو چھوڑ دیا جائے تو مہاگٹھ بندھن میں شامل دوسری پارٹی ہی انہیں لیڈر ماننے کو تیار نہیں ہے۔ لالو یادو کی مضبوط زمینی پکڑ سے برعکس تیجسوی کی شبیہ ایسے لیڈر کی بنتی جارہی ہے جو بہار کے عوام کی لڑائی زمین پر نہیں، بلکہ ٹوئیٹر پر لڑتا ہے۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی لالو نے بھی ’اٹھو بہاری، کرو تیاری‘ جیسا نعرہ دے کر تیجسوی کو ایک طرح سے ریاست کے عوام سے جڑنے کی ضرورت ہی سمجھائی ہے۔ لیکن خود تیجسوی کی تیاری کافی پچھڑی نظر آرہی ہے۔ مہاگٹھ بندھن میں چار-پانچ پارٹیاں ہیں اور الیکشن نوٹیفکیشن جاری ہوجانے کے بعد بھی کامن منیمم پروگرام کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ کھوئی ہوئی سیاسی زمین تلاش کررہے مانجھی جیسے تپے-تپائے لیڈر تیجسوی پر من مرضی کا الزام لگاکر پہلے ہی این ڈی اے کا ہاتھ تھام چکے ہیں۔ تیجسوی کی قیادت کو چیلنج دیتے ہوئے اپیندر کشواہا بھی اسی راہ پر ہیں۔ اپنے آخری دنوں میں رگھوونش پرساد سنگھ جیسے سینئر اور ٹربل شوٹر لیڈر پارٹی سے مایوس ہوگئے تھے اور انہیں منانے کے لیے لالوپرساد یادو تک کو دخل دینا پڑا تھا، لیکن وہ اپنے سمدھی چندریکا رائے کو جے ڈی یو میں جانے سے نہیں روک پائے۔
رگھوونش پرساد سنگھ کا معاملہ بھی استثنیٰ ہی کہا جائے گا، کیوں کہ تیجسوی نے کبھی بڑے لیڈروں کے مہاگٹھ بندھن میں بنے رہنے پر کوئی خاص جوش نہیں دکھایا۔ دراصل لوک سبھا انتخابات میں مانجھی اور کشواہا بھی اپنے اپنے سماج کا ووٹ یوپی اے میں ٹرانسفر نہیں کروا پائے تھے۔ تیجسوی کی نظر میں ان کی اہمیت تبھی سے کم ہونے لگی تھی۔ تیجسوی کو لگتا ہے کہ اگر کشواہا بھی ساتھ چھوڑتے ہیں تو سابق اسپیکر ادے نرائن چودھری اور سابق وزیر شیام رجک جیسے دلت لیڈروں کے آر جے ڈی کے علاوہ تیجسوی کے ترکش میں اب کانگریس کا ہی تیر نظر آرہا ہے۔ لیکن آج کی کانگریس اس کانگریس کا عکس بھی نہیں ہے، جو تین دہائی پہلے تک ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹی ہوا کرتی تھی۔ بہار کے عوام میں پکڑ بنانے کی بات تو دور، تیجسوی کی قیادت والے مہاگٹھ بندھن میں ہی اس کی حیثیت پچھ لگّو پارٹی کی ہوگئی ہے۔ اس سے متعلق ریاستی یونٹ کے بڑے لیڈروں میں کافی چھٹپٹاہٹ بھی نظر آرہی ہے۔ یہ لیڈر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ رابطہ میں ہیں اور اگر مہاگٹھ بندھن میں بات نہیں بنی تو یہ کانگریس چھوڑ کر نیا محاذ بھی کھڑا کرسکتے ہیں جو الیکشن میں مہاگٹھ بندھن کو ہی نقصان پہنچائے گا۔
ایسے میں مستقبل میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے تاریخ سے سبق لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ بہار میں آخری بار سال 1990میں کسی ایک پارٹی کی مکمل اکثریت والی حکومت بنی تھی۔ اس کے بعد کے انتخابات میں گٹھ بندھن ہی اقتدار کا سہارا بنا ہے۔ سال 2005سے یہ ٹرینڈ رہا ہے کہ جے ڈی (یو)، آر جے ڈی اور بی جے پی میں سے دو پارٹیوں کے ساتھ آنے پر ہی اقتدار کا سفر پورا ہوپایا ہے۔ سال 2020میں بھی یہ ٹرینڈ برقرار رہنے کے ہی آثار نظر آرہے ہیں، لیکن اقتدار تک پہنچنے سے پہلے دونوں جانب چیلنج انتخابی گٹھ بندھن کو ساتھ رکھنے کا ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
‘گٹھ بندھن برقرار تو بِہار میں ’بَہار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS