زرعی قوانین پر سرکار اور کسانوں کے درمیان بات چیت ہی تعطل کا شکار ہوگئی۔ اب تک جو بھی بات چیت ہورہی تھی، اس کے اختتام پر نئی تاریخ مل جاتی تھی جس سے یہ پیغام کم از کم ملک میں جاتا تھا کہ مسئلہ کے حل کی امید ختم نہیں ہوئی۔ بات چیت جاری ہے تو دیر سویر کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور برآمد ہوگا لیکن گیارہویں دور کی بات چیت کے بعد اگلی تاریخ نہ ملنا اور سرکار و کسانوں کے سخت موقف سے لوگوں کو لگنے لگا ہے کہ شاید یہ بحران ختم نہیں ہوگا پھرتویہ بھی سوال ہوگا کہ تحریک اور دھرنے کا کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو طرح طرح کے اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔ غیر یقینی صورت حال کا مطلب یہ نہیں کہ بحران کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔ کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اب یہ حل چاہے سرکار اور کسانوں کے درمیان بات چیت سے نکلے یا سپریم کورٹ اور اس کی کمیٹی کے ذریعہ نکلے۔ ملک کے عوام یہی سوچ رہے ہیں۔
ابھی تک سرکار اور کسانوں کے درمیان 11دور کی بات چیت ہوچکی ہے اور اگر گھنٹوں کے لحاظ سے حساب لگایا جائے تو وگیان بھون میں کسانوں نے 45گھنٹے گزارے، یہ اور بات ہے کہ بات چیت اتنے گھنٹے نہیں ہوئی۔ بہر حال بات چیت کی طویل میراتھن کے بعد بھی آخر میں نتیجہ صفر نکلا جس سے سرکار، کسانوں اور عام لوگوں کو بھی بہت مایوسی ہوئی، کیونکہ سبھی کو امید تھی کہ بات چیت سے کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔ خود سرکار اور کسان کہہ رہے تھے کہ بات چیت سے ہی مسئلہ حل ہوگا لیکن آخری دور کی بات چیت کے بعد مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا یہ کہنا کہ ’ہم نے پوری کوشش کی، اب گیند عدالت کے پالے میں ہے۔‘ بہت کچھ کہتا ہے۔ پھر بھی انہوں نے دروازے بند نہیں کئے بلکہ کہا کہ اگر کسانوں کے پاس کوئی اور تجویز ہے اور وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو سرکار تیار ہے۔ حیرت ہے کہ ہر بار یہی کہا جاتا رہا کہ بات چیت خوشگوار ماحول میںہوئی پھر ایسا کیا ہوا کہ اچانک ایک طرح سے اسے موقوف کردیا گیا۔ حالانکہ اس دوران دو مواقع ضرور آئے جب کچھ پیش رفت کی بات کہی جارہی تھی۔ ایک چھٹے دور کی بات چیت میں جب 4میں سے 2ایشوز بجلی قانون اور پرالی جلانے کے جرمانے کے معاملہ میں اتفاق رائے ہوا تھا اور دسویں دور کی بات میں سرکار نے تجویز پیش کی تھی کہ وہ زرعی قوانین کے نفاذ کو 18مہینے تک ملتوی کرکے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کو تیار ہے جو قوانین کے ساتھ کسانوں کے تمام مطالبات پر غور کرے گی لیکن بات نہیں بنی۔ کسانوں کے 2بنیادی مطالبات زرعی قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی پر شروع سے آخر تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ سرکار قوانین میں ترمیم کے لئے تیار تو ہے لیکن ان دونوں ایشوز پر نہیں جبکہ کسان ان پر بضد ہیں۔ اس طرح 13نومبر کو سرکار اور کسانوں کے درمیان بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہواتھاوہ 11دور کے بعد 23جنوری کو بے نتیجہ ختم ہوگیا ،اطمینان کی بات یہ ہے کہ سلسلہ بند ہونے سے پہلے سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی سماعت اور اس کے ذریعہ مسئلہ کے حل کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا۔ سپریم کورٹ میں اس معاملہ پر 11جنوری کو سماعت شروع ہوئی ۔ دوسری سماعت میں کورٹ نے سرکار اور کسانوں کے درمیان بات چیت میں کوئی پیش رفت نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سرکار کی سرزنش کی اور قوانین کے نفاذ پر روک لگانے کا اشارہ دیا۔ تیسری سماعت میں قوانین کے نفاذ پر 6ماہ کے لئے روک لگاتے ہوئے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس کے ایک رکن کے استعفیٰ کے بعد وہ سہ رکنی کمیٹی بن گئی۔ اس کمیٹی پر کسانوں نے شبہ ظاہر کیا تو چوتھی سماعت میں کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔ عدالت جہاں سرکار پر سخت ہے وہیں کسانوں پر بھی۔ عدالتی کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ اس نے دوسرے کسانوں کے ساتھ پہلے دور کی بات تو کی لیکن دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے ساتھ ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ کمیٹی انہیں دعوت تو دے رہی ہے لیکن مظاہرین تذبذب میں ہیں کہ بات چیت کریں یا نہ کریں۔ بحیثیت مجموعی صورت حال غیر یقینی بنی ہوئی ہے۔ آگے کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
[email protected]
زرعی قوانین کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS