مرکز میں حکمراں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو ایک اور پارٹی نے خیر باد کہہ دیا۔ اس بار جس پارٹی نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کی ہے وہ پنجاب کی علاقائی پارٹی شرومنی اکالی دل ہے جو بی جے پی کی بہت پرانی اتحادی پارٹی تھی، باجپئی سرکار کے دور سے ہی دونوں پارٹیوں کا اتحاد چل رہا تھا۔ دونوں نے مل کر کئی اسمبلی وپارلیمانی انتخابات لڑے، لیکن اب دونوں پارٹیاں جدا ہوگئیں۔ حالیہ عرصے میں یہ چوتھی علاقائی پارٹی ہے جس نے این ڈی اے سے ناطہ توڑا ہے۔ اس سے قبل جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم اور بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی پارٹی مہاراشٹر کی شیوسینا نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ اگرچہ ان چاروں پارٹیوں کی این ڈی اے سے علیحدگی اور مودی سرکار سے حمایت واپس لینے سے سرکار پر کوئی اثر نہیں پڑا لیکن اس کی وجہ سے راجیہ سبھا اور مستقبل میں مذکورہ ریاستوں میں این ڈی اے ضرور کمزور پڑے گا اور اس کا خمیازہ بی جے پی کے ساتھ ساتھ شاید مذکورہ علاقائی پارٹیوں کو بھی بھگتنا پڑے۔
سرکار نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود زرعی بلوں کو آسانی سے دونوں ایوانوں سے پاس کرالیا لیکن اس کے بعد تیزی سے بدلتے حالات میں ایسا لگتا ہے کہ سرکار بیک فٹ پر آگئی ہے۔ اسے روزانہ صفائی دینی پڑرہی ہے اور کسانوں کو یقین دہانی کرانی پڑرہی ہے کہ ان بلوں سے ان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ پہنچے گا، لیکن اپوزیشن پارٹیوں نے پہلے پارلیمنٹ اور اب اس کے باہر زرعی بلوں کے خلاف جو مہم چھیڑ رکھی ہے اور جس طرح پورے ملک خصوصاً ہریانہ اور پنجاب میں کسان سڑکوں پر آکر احتجاج کررہے ہیں، اس سے سرکار کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ غور طلب امر ہے کہ صرف بی جے پی اور اس سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزرا ہی زرعی بلوں پر صفائی پیش کررہے ہیں یا ان کے حق میں بول رہے ہیں، این ڈی اے کی باقی پارٹیاں اور مودی سرکار میں ان کے وزرا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کا بھی پیغام سرکار کے لئے اچھا نہیں جارہا ہے۔ شاید یہ بدلتے ہوئے حالات کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی کی اتحادی پارٹیاں زرعی بلوں پر خاموشی اختیار کرکے جوابدہی سے بچنے کی کوشش کررہی ہیں اور بی جے پی کو اس معاملہ میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ویسے بھی ہر بل پر صرف بی جے پی کے لیڈران اور وزرا ہی بولتے ہیں، حلیف پارٹیوں کا طرز عمل ایسا رہتا ہے جیسے کابینہ یا پارلیمنٹ میں حمایت کے علاوہ بلوں سے ان کاکوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی لئے خود کو حمایت اور اس کے بعد خاموشی تک محدود رکھتی ہیں۔
شرومنی اکالی دل اور بی جے پی کے درمیان بظاہر اختلافات تو نظر نہیں آرہے تھے مگر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شرومنی اکالی دل اس حد تک چلا جائے گا۔ جب زرعی بلوں کو آرڈیننس کی صورت میں سرکار نے نافذ کیا تھا تو شرومنی اکالی دل نے حمایت کی تھی۔ اس حمایت کی وجہ سے پارٹی کو کسانوں کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی پارٹی نے اپنا منھ نہیں کھولا لیکن مانسون اجلاس میں پیشی سے پہلے کابینہ کی میٹنگ میں بلوں پربحث ہوئی جس میں شرومنی اکالی دل کے کوٹہ سے مرکزی وزیر ہرسمرت کور بھی موجود تھیں ۔میٹنگ میں کیا ہوا، یہ تو پتہ نہیں چلا لیکن کابینہ میں بلوں کی منظوری کے بعد ہرسمرت نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ وہ پنجاب کے کسان بھائیوں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کھڑی رہنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ دراصل یہیں سے بی جے پی اورشرومنی اکالی دل کے راستے الگ ہونا شروع ہوئے۔ پارٹی نے پارلیمنٹ میں زرعی بلوں کی مخالفت کی، تاہم وہ سرکار اور این ڈی اے کا حصہ رہی۔ اجلاس کے بعد جب پنجاب میںبلوں کے خلاف کسانوں کے احتجاج اور تحریک میں اورشدت آئی توپارٹی پر دبائو بڑھااور ریاست میں اس کے وجود کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ پھر 26؍ستمبر کو پارٹی نے دوسرا بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اب نہ وہ سرکار کا اور نہ ہی این ڈی اے کا حصہ ہے۔ یہ نہ صرف سرکار کے لئے بڑا دھچکا ہے بلکہ اس سے این ڈی اے کی دیگر پارٹیوں کے کان بھی کھڑے ہوجائیں گے، کیونکہ کسانوں نے اگر ملک گیر تحریک شروع کردی اور اپوزیشن پارٹیاں بدلتے حالات کا سیاسی فائدہ اٹھانے لگیںتو این ڈی اے اور مودی سرکار میں شامل تمام علاقائی پارٹیوں کی پوزیشن اور مجبوری وہی ہوجائے گی جو آج شرومنی اکالی دل کی ہے۔ مفاد پرستی اپنی جگہ ہے لیکن جہاں وجود کا سوال پیدا ہوجائے تو سوچنا اوربڑا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
[email protected]
شرومنی اکالی دل کے فیصلے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS