مجرموں کو نشانِ عبرت بنایاجائے

0

  عملاً اپرادھ پردیش بن جانے والے اترپردیش کی یوگی حکومت بے حسی، ڈھٹائی اور بے شرمی کی تمام حدیں پارکرگئی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے دیکھاجارہاتھا کہ حکومت کی سرپرستی میں پولیس انتظامیہ ہاتھرس واقعہ کو دبانے کی بھرپورکوشش کررہی تھی لیکن آج کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے حکومت نے عصمت دری کے واقعہ ہی کی مکمل تردید کردی ہے۔یوگی حکومت میں وزیر اجیت پال سنگھ نے ہاتھرس میں 19 سالہ بچی کی اجتماعی عصمت دری اور اس کی موت کے واقعے کو ایک معمولی مسئلہ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ متاثرہ لڑکی سے زیادتی نہیں کی گئی۔یوپی میں الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کامحکمہ سنبھالنے والے وزیراجیت پال سنگھ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ پر حزب اختلاف کا احتجاج سوائے ہنگامہ آرائی کے کچھ نہیں ہے ان کے پاس کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات اٹھاتے رہتے ہیں۔یوپی حکومت کے ایک وزیر کا یہ شرم ناک بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پورا ملک ہاتھرس کی بیٹی کے ساتھ ہوئی درندگی کے خلاف متحد ہوکر انصاف کا طلب گار بنا ہوا ہے۔دہلی سے لے کر بنگال تک کی سڑکوں پراس بربریت کے خلاف ’انسانیت‘ پر یقین رکھنے والے افراد احتجاج کررہے ہیں۔ ’بیٹی بچائو‘ کا نعرہ لگانے والی ’ رام راجیہ‘ میں راون کے ننگے ناچ کے خلاف احتجاج کو وقتی ابال اور سیاست سے تعبیر کرکے یوپی حکومت اس معاملے کی سنگینی کم نہیں کرسکتی ہے۔ یوپی حکومت پہلے دن سے ہی اس معاملے کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی ہے۔آغاز میں ہی پولیس نے ایف آئی آر نہ درج کرکے اس کااشار ہ دے دیا تھا۔ معاملہ جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا، حکومت کے اشارہ پرپولیس انتظامیہ کی سختی بڑھتی گئی، رات کے اندھیرے میں لاش جلاڈالنے کے بعد پورے بل گڑھی گائوں اورا طراف کو قلعہ میں بدل کر وہاں ہر شخص کے آنے جانے پر پابندی لگادی گئی۔گائوں کے لوگوں کو انتہائی ضروری کام ہونے پر آدھار کارڈ دکھانے کے بعدہی آنے جانے کی اجازت دی گئی۔پولیس والوں نے اپنی طاقت کا بے محابا استعمال کرتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی سے ہاتھاپائی کی اور انہیں زمین پر گرادیا۔ دو دنوں بعد جب ترنمول کانگریس کاوفد ’منیشا‘ کے گائوں بل گڑھی جانے کیلئے ہاتھرس پہنچا تو اس وفد کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاگیا۔تین خواتین ارکان پارلیمنٹ کاکولی گھوش دستیدار، ممتا ٹھاکر اور پرتیما منڈل کے ساتھ جانے والے اس چار رکنی وفد کی قیادت کررہے ڈیریک اوبرائن سے زبردستی کی گئی اور انہیں ایسا دھکا دیاگیا کہ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔خواتین ارکان پارلیمنٹ کاکولی گھوش اور پرتیما نے پولیس کے ذریعہ زد و کوب کیے جانے اور بے عزت کرنے کے الزامات لگائے۔ مظلوموں کی اشک سوئی کیلئے پہنچنے والے عوام کے منتخب نمائندوںکے ساتھ پولیس کا ظالمانہ رویہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔
 یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پولیس حزب اختلاف کے لیڈروں اور میڈیا کے افراد کو وہاں جانے سے کیوں روک رہی ہے ؟لاش جلائے جانے کے چار دنوں بعد آج جب میڈیا کے نمائندوں کو گائوں میں جانے کی اجازت ملی، اس کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ انتہائی حیران کن اور شرم ناک ہیں۔ مظلومہ منیشا کے اہل خانہ نے بتایاکہ ضلع مجسٹریٹ پروین کمار نے انہیں دھمکایا ہے۔ ڈی ایم نے ان سے کہا کہ آپ کی بچی کورونا سے مرتی تو کیا کرتے؟ متاثرہ کے اہل خانہ نے پولیس اور ریاستی حکومت کی تشکیل کردہ ایس آئی ٹی کے ساتھ سی بی آئی پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ اس معاملہ کی جانچ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو۔اس سے قبل گھر والوں کا ایک ویڈیو بھی وائرل ہوچکا ہے جس میں ڈی ایم پروین کمار بیان تبدیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، دھمکیاں ہیں کہ میڈیا والے رخصت ہوجائیں گے، اس کے بعد وہی لوگ باقی رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ڈی ایم گھر والوں سے بات کر رہے تھے تو کسی نے گھر میں ویڈیو بنائی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ اس کے بعد پولیس نے گھروالوں سے ان کے فون بھی چھین لیے۔
ہنگامہ آرائی کے بعد یوگی حکومت نے مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انتظامیہ کے کئی افسران کو معطل کردیا ہے۔ کہاجارہاہے کہ ہاتھرس کے ڈی ایم پروین کمارکے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے، لیکن ڈی ایم کا نام اس سرکاری کاغذ میں شامل نہیں ہے جس میں اس کارروائی کا اعلان کیاگیا ہے۔جس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو چلا ہے کہ انصاف کی راہ میں کہیں اس کادلت ہوناآڑے نہ آئے۔
 ایک دلت بیٹی کے ساتھ ہونے والی درندگی کے بعد سے اب تک اترپردیش کی یوگی حکومت اور اترپردیش پولیس کا رویہ انتہائی شرم ناک رہاہے۔ حکومت اس کیلئے چاہے کتنی ہی دلیلیں کیوں نہ گڑھ لے لیکن اسے کسی بھی حال میں درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ یوگی حکومت اس معاملہ کی سنگینی کو محسوس کرے اور مجرموں کو نشان عبرت بناکر اپنے اوپر لگ رہے ’جرم پروری ‘ کے اس داغ کو دھونے کی کوشش کرے۔ورنہ عین ممکن ہے کہ اس کاکالاسایہ آنے والے بہار اسمبلی انتخاب پر پڑے اور بی جے پی کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS