تنقید کو بغاوت نہ سمجھے کانگریس

0

انیس(19) ویں  صدی کی اختتامی دہائی اور پوری 20ویں صدی کے ہندوستان کی تاریخ عملاًکانگریس کی تاریخ رہی ہے۔کانگریس نے نظریاتی سطح پر ہندوستان کو مستحکم کیا اور قیدفرنگ سے آزاد کرانے میں اپنا نمایاں اور سرگرم کردار ادا کیا۔ اس کے ثمرات بھی کانگریس کو حاصل ہوئے اورپورے ہندوستان پر بلا شرکت غیرے اس نے حکومت کی۔ لیکن آج 21ویں صدی میں کانگریس دھیرے دھیرے خود تاریخ بنتی جارہی ہے۔1984کے بعد سے بننے والی کانگریسی حکومتیں دوسری پارٹیوں کے سہارے پر ٹکی ہوئی رہیں اور لوک سبھا میں اسے قطعی اکثریت حاصل نہ ہوپائی۔ 2014کے پارلیمانی انتخاب کے بعد سے تو کانگریس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔آج بہار اسمبلی انتخابات میں شکست فاش کے بعد اب یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ کانگریس کی اگلی ہار2021میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں ہونی ہے۔
یہ قیاس آرائی کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دس برسوں کا انتخابی جائزہ بتارہاہے کہ اس دوران ہونے والے ریاستوں کے اسمبلی انتخابات، پارلیمانی انتخابات حتیٰ کہ ضمنی انتخابات اور بلدیاتی حلقوں کے انتخابات بھی کانگریس نے ہارنے کیلئے ہی لڑے ہیں۔ پنچاب، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ میں ہونے والی جیت بھی اتفاقی ہی تھی اور وہ بھی دوسری علاقائی پارٹیوں کی رہین منت رہی ہے۔بہار میں بھی اس نے راشٹریہ جنتادل کا ہاتھ تھاماتھا اورا پنی بساط سے کہیں زیادہ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کردیے تھے مگر اسے منھ کی کھانی پڑی۔ اب اس ہار کیلئے اپنی تنظیمی کمزوری کی بجائے اس نے مجلس اتحاد المسلمین کو الزام دینا شروع کردیاہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ اپنی ہار کیلئے کانگریس خود ہی ذمہ دار ہے اور اس کا اقرار کانگریس کے سینئر لیڈران بھی کررہے ہیں۔ طارق انورسے شروع ہونے والا سلسلہ کپل سبل سے ہوتے ہوئے پی چدمبرم تک پہنچ گیا ہے۔ ان لیڈروں میں سے کسی نے اشارے کنایہ میں تو کسی نے کھل کر پارٹی قیادت پر تنقید کی ہے۔ کپل سبل نے راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ سونیا گاندھی پر تنقید کردی ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پارٹی قیادت کانگریس کو ’موثر متبادل ‘نہیں بنا پارہی ہے اور پارٹی کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔کپل سبل ان 23 لیڈروں میں سے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال اگست کے مہینہ میں کانگریس قیادت کو خط لکھ کر پارٹی میں اصلاحات اور تبدیلی کا مطالبہ کیاتھا۔جس کے بعد اندرون پارٹی ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس بار کپل سبل نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عوامی پلیٹ فارم سے پارٹی قیادت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔کپل سبل کا کہنا ہے کہ نہ صرف بہار بلکہ مختلف ریاستوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے، ایسا لگتا ہے کہ لوگ کانگریس کو ایک موثر آپشن نہیں مان رہے ہیں۔ بہار میں آر جے ڈی واحد آپشن ہے۔ ہمیں گجرات کے ضمنی انتخاب میں ایک بھی نشست نہیں ملی۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی یہی صورتحال تھی۔ اترپردیش کے ضمنی انتخابات میں کانگریس امیدواروں کو کچھ نشستوں پر 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے۔ کانگریس کی یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ کپل سبل کو اس بات کا بھی غم ہے کہ کانگریس میں اصلاحات کیلئے پارٹی قیادت کو خط لکھے ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر گیا لیکن اب تک پارٹی کے اندراس پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
انتخابات میں پارٹی کی کارکردگی سے مایوس کانگریس کے یہ لیڈران دیکھاجائے تو پارٹی کے باغی نہیں ہیں درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ پارٹی میں تطہیر اور نیا خون شامل کرنے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں جمہوریت کی راہ اپنائی جائے۔ نامزدگی کی جگہ انتخاب کا موقع دیاجائے اور ملک کے سامنے ایک بہترا ور موثرمتبادل کے طور پر کانگریس کو پیش کیاجائے۔ لیکن پارٹی کا ایک طبقہ انہیں کانگریس دشمن اورباغی کہہ کر ان کے حوصلے پست کرنے کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی دیوار سے لگا رہا ہے۔کپل سبل کے بیان کے بعد سے ان پرچہار جانب سے حملے ہورہے ہیں۔ سلمان خورشید، اشوک گہلوت نے ان کے بیان کو پارٹی کارکنوں کا حوصلہ پست کرنے والا بتایا تو پارلیمنٹ میں کانگریس قانون ساز پارٹی کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جولوگ پارٹی کے کام کاج سے ناخوش ہیں وہ عوامی طور پر بیان بازی کرنے کے بجائے کسی بھی پارٹی میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا وہ اپنی دوسری پارٹی بناسکتے ہیں۔
وقت کی ضرورت تو یہ تھی کہ کانگریس قیادت اور دوسرے لیڈران کپل سبل اور دوسرے ’ باغی‘ لیڈروں کی بات کو توجہ سے سنتے اور انتخابات میں ہورہی لگاتار ہار کا سبب دریافت کرتے، 21ویں صدی کی سیاسی ضرورتوں کے مطابق خود کو ڈھال کر اصلاح کے ٹھوس اقدامات کرتے لیکن اس کے برخلاف غلطی کی نشان دہی کرنے والے کو سب و شتم کا نشانہ بناکر یہ بتا دیا ہے کہ ابھی کانگریس کے ’اچھے دن‘ نہیںآنے والے ہیں اور نہ ہی ہار کا یہ سلسلہ ختم ہوگا۔ 2021میں ہونے والا بنگال اسمبلی انتخاب بھی کانگریس کی تاریخ میں ’ شکست‘ کا ایک اور باب جوڑ دے گا۔ اگر مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں کانگریس متوقع کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کانگریس اندرون پارلیمنٹ کی طرح انتخابی میدان میں بھی بی جے پی کو واک اوور دے رہی ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS