بہار اسمبلی انتخابات کے دوران جیسی فضا نظر آرہی تھی، سیاسی مبصرین جو اندازے لگارہے تھے حتیٰ کے ایگزٹ پول میں جو قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں، ای وی ایم کھلنے اور ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے فوراً بعد صورت حال تو ویسی ہی نظر آرہی تھی لیکن جیسے جیسے گنتی آگے بڑھی، ایگزیکٹ صورت حال ایگزٹ پول کے برعکس نظر آنے لگی۔ سارے اندازے غلط ثابت ہونے لگے۔ خاموش ووٹروں نے جیسے حالات ہی بدل دیے۔ کسی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تو کسی کو غیرمتوقع سبقت اور جیت حاصل ہونے لگی لیکن نتائج کا سسپنس شروع سے آخر تک رہا کیوں کہ ہر راؤنڈ کی گنتی کے بعد سبقت اور پیچھے ہونے کا فرق اتنا کم ہوتا تھا کہ دوسرے راؤنڈ میں وہ بدل جاتا تھا اور ایک ہزار سے کم فرق والی سیٹوں کی تعداد آخر تک کم ازکم3درجن رہی جو معمولی نہیں ہوتی۔ پارٹیاں بھلے ہی رجحانات پر جشن منارہی تھیں لیکن دوسری طرف سے بھی یہی کہا جارہا تھا کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مبصرین بھی یہی کہتے سنے گئے کہ کانٹے کے مقابلہ میں اور پل پل میں حالات بدلنے کی صورت میں کچھ بھی کہنا جلدبازی ہوگی۔
بہار میں گنتی طویل چلی اور آخر تک سسپنس رہا لیکن دیگر ریاستوں میں ہوئے ضمنی انتخابات میں تصویر جلد ہی صاف ہوگئی۔ بی جے پی نے اپنی حکومت والی ریاستوں اترپردیش، گجرات، کرناٹک اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں اپنی کامیابی کا جھنڈا بلند کیا۔ مدھیہ پردیش میں 28سیٹوں پر ہوئے ضمنی اسمبلی انتخابات کسی اسمبلی الیکشن سے کم نہیں تھے۔ کیوں کہ ضمنی انتخابات سے ہی طے ہونا تھا کہ وہاں شیوراج سنگھ سرکار برقرار رہتی ہے یا پھر سے کانگریس اقتدار میں آتی ہے۔ اگر ان سیٹوں پر بی جے پی ہار جاتی تو اس کی سرکار اقلیت میں آجاتی لیکن بچ گئی۔ نئے ممبران اسمبلی کے انتخاب کے بعد بھی اسمبلی میں بی جے پی کی اکثریت برقرار رہی اور کانگریس اقتدار سے باہر ہی رہے گی۔ پھر سے اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے پارٹی کو ووٹ نہیں ملا۔ واضح رہے کہ بہار اسمبلی انتخابات کے ساتھ ایک لوک سبھا حلقہ بالمیکی نگر(بہار) اور 11ریاستوں کی 56سیٹوں پر ضمنی اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔
اگر بات کی جائے بہار کی تو بھلے ہی سارے اندازے غلط ثابت ہوئے لیکن بی جے پی فائدے میں رہی ہے۔ اس کی سیٹیں کافی بڑھی ہیں اور وہ نتیش کمار کی پارٹی جنتادل متحدہ سے کافی زیادہ ہوگئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جس حکومت مخالف لہر کی بات کہی جارہی تھی، وہ صرف نتیش کمار کے خلاف تھی۔ بی جے پی بہار این ڈی اے میں نمبر ایک پارٹی بن گئی ہے اور جنتا دل متحدہ نمبر دو۔ سیٹوں کے لحاظ سے راشٹریہ جنتا دل کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا۔ البتہ اس کی حلیف پارٹیوں کی سیٹیں کم ہوئی ہیں۔ شاید اسی لیے عظیم اتحاد کو توقع کے مطابق الیکشن میں کامیابی نہیں ملی۔ اگر اس بار بہار اسمبلی الیکشن میں لوک جن شکتی پارٹی کا صفایا ہوگیا لیکن اس پارٹی کی وجہ سے جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کو کافی نقصان پہنچا۔ لوک جن شکتی پارٹی نے بی جے پی کے خلاف 6اور جنتا دل متحدہ کے تمام امیدواروں کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جو کامیاب تو نہیں ہوسکے لیکن کھیل ضرور بگاڑا۔ بہار کے نتائج میں اہم رول اسدالدین اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم نے بھی ادا کیا جس کے امیدوار سیمانچل کے علاقہ میں کھڑے تھے جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ وہاں پارٹی اور اس کے اتحاد کو سیٹیں بھی ملیں اور راشٹریہ جنتا دل و کانگریس کی راہ مشکل ہوگئی۔ عظیم اتحاد کے اندازے سیمانچل میں جوبگڑے آخر تک نہیں سنبھل سکے۔ کورونا کی وجہ سے ریاست میں پولنگ مراکز بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے ای وی ایم کی تعداد بھی بڑھی اور گنتی لمبی چلی۔ لیکن آخر میں تصویر ایسی سامنے آئی کہ بہار میں بھی این ڈی اے کے لیے مہاراشٹر جیسے حالات پیدا ہوگئے جہاں پہلے شیوسینا بڑی اور بی جے پی چھوٹی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ لیکن بعد میں بی جے پی بڑی اور شیوسینا چھوٹی ہوگئی اور کرسی کے لیے رسہ کشی نے دونوں پارٹیوں کو الگ کردیا۔ بہار میں بھی پہلے این ڈی اے میں جنتا دل متحدہ نمبر ایک اور بی جے پی نمبر دو پارٹی ہوا کرتی تھی لیکن اس بار الیکشن نے بی جے پی کو نمبر ایک اور جنتا دل متحدہ کو نمبر دو پوزیشن پر کردیا۔ اس لیے یہاں بھی مہاراشٹر جیسے حالات دیر سویر پیدا ہوسکتے ہیں۔ جس طرح بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آئے، یہ کہنا مشکل ہے کہ رائے دہندگان نے کن ایشوز اور وعدوں پر ووٹ دیا اور ان کی پسند و ناپسند کی کسوٹی کیا رہی۔
[email protected]
بہار الیکشن: مقابلہ کانٹے کا رہا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS