معیشت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی

0

ایسے وقت جب پارلیمنٹ میں گزشتہ 2 ہفتے سے مہنگائی، بے روزگاری، جی ایس ٹی وغیرہ پر ہنگامہ ہورہا ہے ۔جس کے بعد سرکار لوک سبھا میں بحث کرانے کو تیارہوگئی۔اس بحث سے اگرچہ ملک وقوم کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا جیساکہ ماضی میں سبھی دیکھ چکے ہیں۔ کیونکہ صرف پارلیمنٹ میں بحث سے بے روزگاری، مہنگائی اورجی ایس ٹی کے مسائل حل نہیں ہوں گے،بلکہ اس کے لئے زمین پر کام کرنا ہوگا ۔ پالیسی بنانی ہوگی، روزگار پیدا کرنے کیلئے انفرااسٹرکچر بڑھانا ہوگا اور وسائل ومواقع پیداکرنے ہوں گے، جب تک یہ سب چیزیں نہیں ہوں گی، معیشت کے تعلق سے اندیشے ظاہر کئے جاتے رہیں گے ۔ ایسے میں ریزروبینک آف انڈیا کے سابق گورنررگھورام راجن نے ہندوستانی معیشت کے تعلق سے جہاں کئی اندیشوں کو دور کیاہے۔ وہیں کچھ ایسی باتیں کہی ہیں ، جو غورطلب ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک مضبوط معیشت کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی بہت ضروری ہے ۔دوسرے روزگارکے مواقع پیداکرنے کی پالیسی پر کام کرنا ہوگا روزگارکا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تردید کردی کہ ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوں گے یا اس سے ملک کا موازنہ کیاجاسکتاہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سری لنکا سے دور ہیں اوردور رہناچاہئے ۔نہ ہم پر سری لنکا جیسابیرونی قرض ہے اورنہ ہمارے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرکی کمی ہے ، رہی بات مہنگائی کی تواس کا سامنا پوری دنیا کررہی ہے، لیکن ریزروبینک شرح سود میں اضافہ کررہا ہے ، جس سے افراط زرکوکم کرنے میں مددملے گی ۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ کہی کہ فساد اور احتجاج معیشت کے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔ اقلیتوں کو دبانے کے مسئلہ پر انہوں نے سری لنکاکی مثال دی اور کہاکہ سری لنکامیں اقلیتی تملوں کو دبایاگیا ، اس کے بعد خانہ جنگی ہوئی ، جس کی وجہ سے وہاں کی معیشت گرگئی ۔
ملک کی معیشت کے تعلق سے پارلیمنٹ میں بحث ہویا نہ ہو سوشل میڈیا پر پورے سال ہوتی رہتی ہے ۔وہ بحثیں کبھی کسی رپورٹ کے تناظر میں ہوتی ہیں تو کبھی کچھ خاص اعدادوشمار کی روشنی میں۔ جب سے سری لنکا کے حالات خراب ہوئے ہیں ، اس کے پس منظر میں کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر باتیں کہی جارہی ہیں، حالانکہ جتنے بھی ماہرین معیشت ہیں، وہ اس طرح کی باتوں کی پرزور تردید کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سری لنکا سے ہمارا موازنہ کسی بھی پہلو سے نہیں کیا جاسکتا۔نہ وہاں کی طرح ملک میں حالات ہیں اورنہ ہی اس کی طرح خراب معیشت ہمارے یہاں ہے ۔ہمارے یہاں سیاسی حالات بھی مختلف ہیں، پھر بھی لوگ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں ۔جس سے سماج اور لوگوں میں غلط پیغام جاتا ہے ۔جن کو ان سب باتوں کا علم نہیں ہوتا ، وہ پروپیگنڈے کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں سیاست کرتی رہیں گی اورملک اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہے گا ۔ رہی بات معیشت میں نشیب وفراز کی تو یہ نہ ہندوستان کے لئے نئی ہے اورنہ دنیا کے لئے ۔کورونا کے بعد دنیا میں کئی ممالک کی معیشت پٹری سے اتری۔ وطن عزیز کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی ، یہاں تک کہ جی ڈی پی منفی میں چلی گئی تھی، لیکن اب حالات کافی بہترہوچکے ہیں ۔پھر بھی بے روزگاری اورمہنگائی جیسے مسائل یقیناتوجہ طلب ہیں ۔
آربی آئی کے سابق گورنر کی یہ بات یقیناکافی معنی خیز ہے کہ مضبوط معیشت کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی بہت ضروری ہے ۔اس تعلق سے عموما بحث نہیں ہوتی ہے ، حالانکہ یہ بات وقتاًفوقتاً کہی جاتی ہے کہ کسی بھی کمیونٹی خصوصا اقلیتوں کو دباکر یا نظر انداز کرکے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔جس نے بھی انہیںنظر انداز کیا ، اس کا انجام اچھا نہیں ہوا ۔ کیونکہ معاشرہ کاایک طبقہ پسماندہ رہ جائے اورباقی لوگ آگے بڑھ جائیں تو اسے دنیامیں کوئی بھی ترقی نہیں کہہ نہیں سکتا۔بلکہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ یہی نصیحت رگھورام راجن نے سری لنکا کی مثال دے کر کی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS