ہندوستان میں معاشی عدم مساوات ایک بار پھر بحث کا موضوع بن چکا ہے۔اس تازہ بحث کی بنیاد محکمہ انکم ٹیکس کے اعداد و شمار نے مہیا کی ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس کے مطابق ہندوستان کے ایک فیصد امیرترین افراد کی دولت میں کم ٹیکس ادا کرنے والے 25 فیصد شہریوں کے مقابلے 60فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔یعنی انتہائی امیر اور متوسط طبقہ کے درمیان معاشی خلیج بھی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس صورتحال پر کانگریس نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کے لیڈر جے رام رمیش نے حکومت کے انکم ٹیکس ریٹرن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ انکم ٹیکس دہندگان میں سے سب سے اوپر ایک فیصد نے سال 2013-14 میں کل آمدنی کا 17 فیصد کمایا جبکہ 2021-22 میں ان ہی ایک فیصد شہریوں نے ملک کی کل آمدنی کا 23 فیصد کمایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ افراط زر کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد سب سے کم 25 فیصد ٹیکس دہندگان نے 2019 کے مقابلے 2022 میں کم حقیقی آمدنی حاصل کی۔انکم ٹیکس دینے والے ملک کے 25 فیصد لوگوں کی کل آمدنی سال2019میں3.8لاکھ کروڑ روپے تھی جو سال2022میں 11فیصد کم ہو کر 3.4 لاکھ کروڑروپے ہوگئی۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے اوپر ایک فیصد کی حقیقی آمدنی رکھنے والے شہریوں کی کل آمدنی مالی سال 2019 میں 7.9 لاکھ کروڑ روپے تھی جو سال2022میں 30 فیصد بڑھ کر 10.2 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
ہندوستان میں معاشی عدم مساوات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں موجود موروثی تضادات کی وجہ سے معاشی مساوات زمانہ قدیم سے ہی پیچیدگیوں سے بھری ہوئی آرہی ہے۔ آزادی کے بعد بھی اس میں کوئی خاطرخواہ اصلاح نہیں کی جاسکی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ معاشی عدم مساوات بڑھتا ہی رہا۔پھرنو لبرل ازم اور عالمگیریت کے عروج کے زمانہ میں بنائی جانے والی معاشی پالیسیوں نے معاشی عدم مساوات کو ترقی کے عمل کی ایک ناگزیر ضمنی پیداواربنادیا۔ معاشرتی اقتصادیات کے ماہرین کو امید تھی کہ نو لبرل ازم اور عالمگیریت جیسے جدید تصورات معاشی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سماجی و اقتصادی نظام سے ذات پات اور صنفی عدم مساوات کو دور کرنے میں بھی مدد گارہوںگے، مگر ایسا نہیں ہوا۔تاہم عدم مساوات کو متوازن رکھنے کی کوششیں نظرآتی تھیں اوراس کے مثبت نتائج بھی سامنے آتے رہتے تھے۔
ادھر گزشتہ چند برسوں میں عالمی عدم مساوات کی رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آبادی کے سب سے اوپر ایک فیصد کی دولت میں غیرمعمولی اور دیوہیکل اضافہ ہو رہا ہے۔ شہروں میں معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے۔ دیہاتوں اور شہروں کے درمیان معاشی عدم مساوات کا فرق ہرگزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتاجارہاہے اور اس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں ترقی کی مقدار اور نوعیت میں بھی بھاری فرق نظرآتا ہے۔محکمہ انکم ٹیکس کے گوشوارے داخل کرنے والے مختلف طبقات کے درمیان آمدنی کا یہ دیوہیکل فرق ملک میں موجودہ موروثی تضادات کے ساتھ ساتھ ملک کے مالیاتی نظام کے ناخدائوں کی استعدادکار کا نوحہ بھی ہے۔ وبا کے دوران اچانک لاک ڈائون اور پھر اس کی مدت میں مسلسل اضافہ،اس سے قبل غیر منصوبہ طریقہ سے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کا نفاذ ایسے عوامل ہیں جو آج تک ملک کے مالیاتی نظام کالہونچوڑ رہے ہیں۔دوسری جانب غریب اور متوسط طبقہ کو فراموش کرتے ہوئے صرف ملک کے مٹھی بھر لوگوں کے مفاد میں پالیسی سازی بھی ا س دیوہیکل عدم مساوات کی بنیادی وجہ ہے۔لاک ڈائون کے دوران اقتصادی مجموعہ مراعات میں جہاں صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو نقدرقوم فراہم کی گئیں، وہیں عام آدمی کو اس کے لیے دیے گئے قرض پر سود میں وقتی رعایت کا اعلان کیاگیا۔ وبا سے پہلے اوربعد کے بجٹ میں بھی اسی رجحان کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ایک بدبختی اور بھی ہے کہ حکومت تاجروں کے ایک خاص طبقہ کی کچھ اس طرح سرپرستی کررہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ملک میں بازار کے مترادف بن گئے ہیں۔بازار کی کارکردگی کو بہتر اور متوازن بنانے کیلئے لازمی ہے کہ اس کی بنیادی شرط مسابقت کو جاری رکھا جائے/ لیکن حکومتی سرپرستی میں مخصوص صنعتکار اور تاجروںنے اجارہ قائم کرلیا ہے جس کی وجہ سے بازارکی دولت سمٹ کر ان کے پاس پہنچ رہی ہے اورملک میں بازار کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ یہ وجوہات ایسی ہیں جو معاشی عدم مساوات کو بھیانک بنارہی ہیں۔بہتر ہوگا کہ حکومت اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے ساتھ ملک کی حقیقی معاشی صحت کی بھی فکر کرے۔
[email protected]
ملک کی معاشی صحت !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS