ڈاکٹر جاوید عالم خان
حالیہ دنوں میں ملک میں برسراقتدار پارٹی کے بڑے رہنماؤں، وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے اپنے بیانات میں یہ کہا ہے کہ 2028تک ہندوستان عالمی سطح پر تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ ان کے حساب سے2027-28 تک ملک کی خام گھریلو پیداوار(Gross Domestic Product -GDP) کا سائز 5ٹریلین ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ مالی سال2022-23کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی جی ڈی پی کا سائز3.7ٹریلین ڈالر بتایاگیاہے۔ ان اعداد و شمار کے حساب سے اس وقت ہندوستان عالمی سطح پر پانچویں بڑی معیشت ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے تخمینہ کے مطابق ہندوستان2027-28 تک5ٹریلین معیشت کے ساتھ تیسری بڑی جی ڈی پی والا ملک بن سکتا ہے اور اس کے ساتھ وہ جاپان اور جرمنی جیسی بڑی معیشتوں سے آگے نکل جائے گا۔
اس ضمن میں مرکزی وزیر برائے خزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر ملک کی جی ڈی پی کا سائز 2027-28 تک 5ٹریلین ڈالر سے آگے نکل جائے گا تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ2047تک ہندوستان کی معیشت 30ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ان کے مطابق 2047تک ہم یہ ہدف امرت کال میں حاصل کرلیں گے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری(Foreign Direct Investment-FDI)کو مدعو کرنے کیلئے بہت تیزی سے کام کررہی ہے اور اس معاملے میں قوانین کو کافی ڈھیلا بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ نو سالوں کے دوران595بلین ڈالر کی براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اعدادوشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپریل2000 اور مارچ2023کے دوران یعنی23سالوں کے وقفے میں ہندوستان میں مجموعی طور پر 919بلین ڈالر کی براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی گئی ہے، جس کا 65فیصد گزشتہ آٹھ سالوں میں ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے اضافہ کی اہم وجوہات میں سے پالیسی استحکام کو یقینی بنانا، مختلف سہولیات مہیا کرنا اور تجارت کے ضوابط میں آسانی پیدا کرنا شامل ہیں۔ حالانکہ تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری ٹیکنالوجی سے متعلق سیکٹر میں زیادہ آرہی ہے جیسے کہ سیمی کنڈیکٹر اور الیکٹرک گاڑیاں وغیرہ۔ حالانکہ ان سیکٹر میں روزگار کے مواقع بہت کم ہیں، وہیں عام طور سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری ان سیکٹر میں نہیں کی جا رہی ہے جہاں پر زیادہ مزدوروں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکیں، جیسے کہ زراعت اور چھوٹی صنعتوں کا شعبہ جن کی ترقی جی ڈی پی گروتھ کیلئے نہایت اہم ہے۔
جی ڈی پی گروتھ کو اس وقت موجودہ برسراقتدار پارٹی کی ’وکست بھارت مہم‘ سے بھی جوڑا جارہا ہے، اس سلسلے میں نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بی وی آر سبرامنیم کا کہنا ہے کہ ’وکست بھارت‘ نہ صرف ایک خواب ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ ان کے مطابق2047تک ہندوستان 30ٹریلین ڈالر والی معیشت بننے جارہا ہے، اس کے ذریعہ ملک خود بخود ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیتی آیوگ ترقی یافتہ ملک بننے کیلئے ایک وژن دستاویز تیار کررہا ہے جس کو ملک کے وزیراعظم جنوری کے آخر تک جاری کریں گے۔ وژن دستاویز10مختلف سیکٹورل موضوعات پر مشتمل ہوگا جن میں ترقی کے مختلف پہلو جیسے کہ معاشی ترقی، سماجی پیش رفت، ماحولیاتی پائیداری اور بہتر نظام حکومت وغیرہ وغیرہ۔ ان کے مطابق ہندوستان اس وقت امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی کے بعد دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔
نیشنل اسٹیٹسٹیکل آرگنائزیشن کے مطابق ہندوستان کا جی ڈی پی گروتھ7.3فیصد حاصل کرنے کا امکان ہے جوکہ2022-23کے مقابلے 0.1 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح سے سینسیکس کا اشاریہ کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ اپنے نشان72000سے پہلی بار سینسیکس کی تاریخ میں پار کر گیا ہے۔ جہاں تک افراط زر یا مہنگائی کا تعلق ہے وہ آر بی آئی کے ہدف 4فیصد کے آس پاس ہے۔ جی-20 ملکوں کی معیشتوں میں ہندوستان کی پیش رفت سب سے بہتر ہے اور وہیں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا کہنا ہے کہ جی-20 ملکوں میں ہندوستان ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جائے گا۔
اوپر ذکر کیے گئے تمام جی ڈی پی گروتھ کے دعوؤں کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے کہ اس سے کیا ہندوستان میں سماجی ترقی میں پیش رفت ہونے کا امکان ہے۔ جب ہم سماجی ترقی کی بات کرتے ہیں تو یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سماج کے پچھڑے طبقات کی زندگیوں میں اور مختلف میدانوں میں جیسے تعلیم، صحت، روزگار، حقیقی آمدنی میں مثبت تبدیلی آرہی ہے یا نہیں۔ دراصل جی ڈی پی گروتھ اوپر ذکر کیے گئے سماجی ترقی سے متعلق اشاریوں کی وضاحت نہیں کرتا ہے اور نہ ہی ان کو اپنے اعدادوشمار میں شامل کرتا ہے۔ دراصل جی ڈی پی گروتھ ملک کے اندر پیداواریت کی صلاحیت سے متعلق (پیسوں کی شکل میں) اعدادوشمار پیش کرتا ہے۔ لیکن جی ڈی پی کے اعدادوشمار سماج میں اس کی تقسیم سے متعلق ایسا کوئی حساب کتاب نہیں رکھتے ہیں۔ جی ڈی پی کے اعدادوشمار پیداواریت کی شکل میں تین بڑے شعبوں زراعت، صنعت اور خدمات کے ذریعے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے 50فیصد سے زیادہ لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے جبکہ زراعت کے شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ15فیصد ہے، وہیں صنعت اور خدمات کا جی ڈی پی میں بالترتیب تقریباً30 اور 55فیصد ہے۔ جبکہ صنعت اور خدمات کے شعبوں میں روزگار پانے والوں کی تعداد نہایت ہی کم ہے۔اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ زراعت کے شعبوں میں جو لوگ کام کررہے ہیں، ان کی تعداد ان دونوں شعبوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے اور حقیقی آمدنی بہت ہی کم ہے۔ اس ضمن میں2019 میں معاشیات کے نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی اور استھر دفلو کا کہناہے کہ ہندوستان کے 2047تک ترقی یافتہ ملک بننے میں سب سے بڑا چیلنج آمدنی میں عدم مساوات اور زراعت کے شعبے سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں کام کرنے والوں کی نقل وحرکت کی کمی ہے۔ ان دونوں ماہر معاشیات کے مطابق اقتصادی ترقی کیلئے آمدنی میں عدم مساوات کا خاتمہ اور کام کرنے والوں کو زراعت سے دوسرے شعبوں میں منتقل ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح سے مشہور ماہر معاشیات اشوک گلاٹی کی یہ رائے ہے کہ ’وکست بھارت‘ یا ترقی یافتہ ملک بننے کے خواب کو یقینی بنانے کے راستے میں کئی سارے امتحانات بھی ہیں جس میں غریبی کا خاتمہ اور مزدوروں کی حقیقی آمدنی میں اضافہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ نیتی آیوگ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 9 سالوں میں 248ملین لوگ خط افلاس سے اوپر آچکے ہیں، یہ اعداد و شمار نیشنل ملٹی ڈائمنشنل پاورٹی انڈیکس(این ایم پی آئی) پر منحصر ہے۔ این ایم پی آئی کا طریق کار یونائٹیڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام کے ذریعے تیار کیا گیا ہے، اس کے تحت دس مختلف اشاریوں (Indicators) کو شامل کیاگیا ہے جوکہ صحت (غذائیت اور بچوں کے شرح اموات)، تعلیم(اسکول میں بچوں کی حاضری اور اسکولی سال) اور زندگی گزارنے کا اسٹینڈرڈ(گیس چولہا، صفائی ستھرائی، پینے کا پانی، گھر، بجلی اور دوسرے اثاثہ جات)۔ بعد میں این ایم پی آئی نے ماؤں کی صحت اور بینک اکاؤنٹ کو بھی شامل کیا ہے جس کی وجہ سے اب مجموعی طور پر این ایم پی آئی کے12اشاریے ہو چکے ہیں۔
نیتی آیوگ کا دعویٰ ہے کہ این ایم پی آئی غریبی کو ماپنے کیلئے دوسرے پرانے روایتی آمدنی اور صرف انڈیکس سے بہتر ہے۔
نیتی آیوگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ این ایم پی آئی لوگوں کے معیار زندگی کو ماپنے کا بہتر انڈیکس ہے۔ حالانکہ این ایم پی آئی کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج سرکاری سرمایہ کاری پر منحصر ہیں اور یہ لوگوں کی آمدنی کے بارے میں صحیح سے وضاحت نہیں کرتے ہیں مثلاً پرتھم کے ذریعہ شائع حالیہ ’اسر‘ رپورٹ(سالانہ تعلیمی صورتحال کی رپورٹ) یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ بچوں کا اسکولوں میں داخلہ بڑھ رہا ہے لیکن معیار تعلیم میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، اسی طرح سے اگر لوگوں کے بینک کھاتوں کے نمبرات بڑھ رہے ہیں لیکن غریبوں کی آمدنی اور بچت میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں پر ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکار کے ذریعے عوامی سہولیات کی پہنچ میں اضافے کی بات تو ہورہی ہے مگر اس بات کا بالکل ذکر نہیں کیاجا رہا ہے کہ لوگوں کی حقیقی آمدنی میں گراوٹ آرہی ہے اور معیار زندگی بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 6کروڑ لوگ انتہائی غربت کی زندگی جی رہے ہیں اور ورلڈ بینک کے مطابق ان کی روزانہ فی کس آمدنی2.15ڈالر ہے۔ موجودہ برسراقتدار پارٹی ضرور اس بات کا دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے ملک میں رام راج قائم کردیا ہے لیکن وہ ابھی بھی غریبوں کی ایک بڑی تعداد کو آمدنی کی غربت سے نکالنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے جی ڈی پی گروتھ اور عالمی سطح پر بڑی معیشت کا دعویٰ ایک جھوٹا خواب ثابت ہوگا۔ لہٰذا اس وقت ملک کے اندر روزگار کی شرح کو بڑھانے کی ضرورت ہے جو غریب عوام کی حقیقی آمدنی میں اضافہ کرسکے۔
(مضمون نگار سینٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاؤنٹیبلٹی(CBGA) سے وابستہ ہیں۔)
[email protected]