شاہد زبیری
گزشتہ 28نومبر کو یوپی ٹیچر ایبیلٹی ٹیسٹ ((UP TET کا پیپر اچانک عین اس وقت رد کردیا گیا جب امیدوار نصف سے زیادہ پیپر حل کرچکے تھے۔ اچانک اس طرح پیپر رد کئے جا نے سے اس اہلیتی امتحان میں بیٹھے 19,99,418امیدواروں کے سرکاری ملازمت پانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور روشن مستقبل کے ان کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیںجو6ماہ سے ایک سال تک اس امتحان کی تیاری کرنے، کوچنگ میں پیسہ خرچ کرنے کے علاوہ دور دراز سے امتحان مرا کز پر پہنچے تھے۔ پیپر لیک ہونے کے معاملے پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سخت کارروائی کرائے جا نے کا عندیہ دیا ہے۔ پیپر لیک کرنے والوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ لگا ئے جا نے سے لے کر ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا نے تک کی بات کہی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ یو پی ایس ٹی ایف بھی حرکت میں آگئی اور ملزمان کو گرفتار کرنے کے لئے ریاست کے مختلف اضلاع میں دبش دی اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس معاملہ میں ایس ٹی ایف نے 1995کے بیچ کے پی سی ایس افسر ایگزام کنٹرولر اتھارٹی کے سکریٹری سنجے اپادھیائے سمیت 35ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار ہو نے والوں میں دہلی کی ایجنسی آر ایس ایم فنسرو لمیٹڈ کا ڈائریکٹر انوپ پرساد بھی شامل ہے جس کو پیپر چھاپنے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور 13کروڑ کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ اس ایجنسی کو پیپر چھا پنے کی ذمہ داری ایگزام ریگو لیٹری اتھارٹی کے سکریٹری سنجے اپادھیا ئے نے دی تھی۔ یو پی ایس ٹی ایف اب اس سارے معاملہ کی تحقیقات کررہی ہے ۔
سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو نے پیپر لیک ہو نے پر پہلے ہی دن سرکار پر حملہ بول دیا تھا اور سنگین الزام لگا یا تھاکہ سرکار نے ہی پیپر لیک کرا یا ہے تاکہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمت نہ دینی پڑے۔ ان کا الزام ہے کہ اس کھیل کا تعلق بی جے پی لیڈروں سے ہے اب انہوں نے 4دسمبر کو جھانسی کی پریس کانفرنس میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہا کہ یو پی ٹی ای ٹی کے تار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے آبائی ضلع گورکھپور سے جڑے ہونے کی اطلا عات مل رہی ہیں اور مشتبہ ملزم گورکھپور سے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ اطلاعات صحیح ہیں تو یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ کو اپنے آبا ئی ضلع سے اس سنسنی خیز تعلق کی سنجیدگی سے تحقیقات کرا نی چا ہئے ،بی ایس پی سپریمو مایاوتی، پرگتی شیل سماجوادی پارٹی کے قومی صدر شیو پال یادو اور تو اور بی جے پی کے ایم پی ورون گاندھی نے بھی اس معاملہ میں یو گی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی سر کار پر حملہ بولا اور کہا کہ پیپرلیک کرا نے کا ماسٹر مائنڈ بی جے پی کے ایم ایل اے کا بھائی ہے۔ ابھی تک یہ معاملہ سڑکوں پر تھا اب اس کی گونج سڑک سے پارلیمنٹ تک سنائی دینے لگی ہے ۔عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن اور یو پی میں پارٹی امور کے نگراں سنجے سنگھ نے اس معاملہ کو 3دسمبر کوراجیہ سبھا میں اٹھا یا۔ انہوں نے بھی الزام لگا یا کہ اس کیس کا کلیدی ملزم بی جے پی کے ممبر اسمبلی کا بھائی ہے۔ انہوں نے یو گی سرکار پر طنز کیا ہے کہ یو پی ٹی ای ٹی کا پیپر اس لئے لیک ہو گیا کہ سرکار جناح کا پیپر حل کرنے میں لگی ہے ۔
پیپر لیک کئے جا نے کا یہ معاملہ پہلا معاملہ نہیں ہے اس سے پہلے یو پی اور ملک کے دوسرے حصوں میں یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے اور امتحانات ردّ کئے جا تے رہے ہیں۔ان امتحانات کا تعلق چاہے یو نیورسٹیوں میں داخلہ سے رہا ہو ،یا معاشیات اور میڈیکل سے یا کیٹ سے یا سی بی ایس ای اور پی ایم ٹی سے ،خاص طور پر جن امتحانات کا تعلق سرکاری ملازمتوں سے رہا ہے اور جو ملکی اور صوبائی سطح پر کرا ئے جا تے رہے ہیں ان کے پیپر آئوٹ کئے جا تے رہیں اوریہ بیمار ی قومی سطح پر ہے اس کی جڑیں تعلیم کو تجارت بنا نے، ایجو کیشن مافیا کے پیدا ہونے اوراور سیاسی لیڈروں اور افسران کے ساتھ ایجو کیشن مافیا کے ناپاک گٹھ جوڑ میں پیوست ہیں۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق اکتوبر 2000میں ممبئی مہا راشٹر ایم بی بی ایس کا سال آخر کا پیپر لیک کرایاگیا، اسی طرح جنوری 2002میں دہلی میں ایمس کے ذریعہ منعقد کرائے جانے والے امتحان اے آئی پی جی ایم ،اپریل 2003میں ممبئی مہاراشٹر میں فائننشیل اکائونٹ اینڈ آڈٹ فار ایس وائی وی سی، نومبر 2003دہلی میں کیٹ سمیت بزنس کے اسکولوں کے پیپر ، مارچ 2004میں ممبئی مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری کا اور اپریل 2004میں دہلی میں سی بی ایس ای، پی ایم ٹی کا پیپر لیک ہو چکا ہے۔ 20013میں مدھیہ پردیش کے بھوپال میں پیپر لیک ہو نے کی پوری ایک سیریز سامنے آئی تھی اور ملازمت دلانے کا جھانسہ دینے والوں میں سیاسی لیڈر ، افسر اور ایجو کیشن مافیا سب شامل تھے۔یو پی اسٹیٹ سروس کمیشن کی یو پی ایس سی جیسے امتحانات میں 2015سے 2018تک تین مرتبہ نقل ما فیا اور ایجو کیشن مافیا نے پیپر لیک کرا یا تھا پہلے تو کمیشن نے اس واردات سے ہی انکار کردیا تھا، بعد میں دبائو بڑھنے پر مانا تھا کہ پہلا پیپر لیک ہو اہے اس پیپر کا امتحان ردّ کیا گیا تھا اور دوبارہ امتحان کرا یا گیا تھا۔ حال ہی میں یو پی پولیس میں داروغہ بھرتی میں بھی سالور گینگ کا انکشاف ہوا تھا اور ایک کانسٹیبل سمیت 5ملزمان کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ایک دیگر پولیس کانسٹیبل کے خلاف بھی مقدمہ درج کرا یا گیا تھا جس نے فرضی ایڈمٹ کارڈ کے ذریعہ اپنی جگہ سالور گینگ کے کسی آدمی کو داروغہ کے امتحان میں بٹھا یا تھا۔
یو پی ٹی ای ٹی کے تازہ معاملہ میں یو پی ہی نہیں بہار سے بھی سالور گینگ کے لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں،جبکہ لکھنؤ، چتر کوٹ، ایو دھیا ، پریاگ راج اور شاملی سے ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔پیپر لیک ہو نے کی سرخیاں اکثر اخبارات کے پہلے صفحہ پرنظر آتی رہی ہیں اور ملزمان بھی گرفتار کئے جاتے رہے ہیں لیکن کیا ملزمان کو سزا بھی ملتی ہے؟ یہ سوال اکثر اٹھتا ہے اگر سزائیں ملتیں تو شاید یہ لعنت کم ہو جاتی لیکن یہ مسلسل جا ری ہے ۔ماہرین تعلیم مانتے ہیں کہ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ ایجو کیشن مافیا افسروں اور لیڈر وںمیں موجود کالی بھیڑوں کی ملی بھگت سے اٹھا تا آرہا ہے ۔ کوٹھاری کمیشن سے لے کر نئی قومی تعلیمی پا لیسی تک اس بیماری کا علاج نہیں ڈھونڈا جا سکا ہے جس سے امتحانات کے طریقہ اور نظام تعلیم پر بھی سوالا ت کھڑے ہو تے ہیں ۔ نظامِ تعلیم پر یا طریقہ تعلیم پر پارلیمنٹ میں بحث ہو نی چا ہئے تعلیمی ماہرین کے ایک حلقہ فکر کے خیال میں تعلیم کی نجکاری کی حکومت کی پالیسی کا بھی اس میں اہم رول ہے جس کا فائد ایجو کیشن ما فیا اٹھا رہا ہے۔ تعلیم کو جتنا تجارت کا روپ دیا جائے گا پیسہ کے بل پر امتحانات کے پیپر آئوٹ کرا ئے جا تے ر ہیں گے اور پاس کرانے کیلئے امیدواروں سے لاکھوں وصول کئے جاتے ہیں ملازمتیں بیچی اور خریدی جاتی رہیں گی ۔
اس سارے کالے دھندے میں امتحان کے شعبوں سے جڑے سرکاری ملازمین کا بھی اہم کردار ہوتا ہے اور پیپر جہاں چھا پے جا تے ہیں وہاں سے لے کر امتحان گا ہ تک ایجو کیشن مافیا کی نظریں رہتی ہیں۔ پیپر چھپوانے والی ایجنسی اور پریس مالکان پر ایجوکیشن مافیا کی پکڑ مضبوط رہتی ہے، لیڈران سے اثر ورسوخ بھی کام آتا ہے اور کبھی کبھی خود بعض لیڈران بھی اس دھندے میں ملوث ہو تے ہیں جیسا کہ یو پی ٹی ای ٹی کے پیپر لیک ہو نے پر کچھ باتوں کے سامنے آنے سے ظاہر ہو رہا ہے جو واردات کا ماسٹر مائنڈ حکمراں جماعت کا بھا ئی بتا یا جا رہا ہے۔ افسران کی اگر بات کریں تو ایگزام ریگو لیٹری اتھارٹی کے آئی پی سی ایس کی سطح کا افسر بھی ملوث بتا یا جا رہا ہے ۔باڑھ ہی کھیت کھا نے لگے تو تشویش ہو نا لازمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے مسئلوں پر سیاست نہیں ہو نی چا ہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپو زیشن جما عتوں کی ذمّہ داری نہیں کہ وہ حکمراں جماعت کے کام کاج پر نظر رکھیں اگر ہے تو اپوزیشن جماعت کا حکمراں جماعت کے کام کاج پر سوال کھڑا کرنا واجب مانا جا نا چا ہئے۔ سیاسی جماعتیں اگر سیاست نہیں کریں گی تو کیا کریں گی یہ بات صحیح ہے کہ اس طرح کے معا ملوں سے کسی بھی حکومت کا دامن پاک نہیں ہے سبھی پارٹیوں کی سرکاروں میں اس طرح کی واردات اور واقعات ہوتے رہے ہیں اور ہر پارٹی خود کو بے قصور بتاتی ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھو لنا چا ہئے کہ امتحانات کے پیپر لیک ہو نے کے معاملہ کا تعلق ہمارے نوجوانوں کے مستقبل سے جڑا ہو تا ہے۔ ان کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا نی چا ہئے اور ایجو کیشن مافیا کے علاوہ افسران، ملازمین اور سیاسی لیڈران جو بھی اس کالے دھندہ میں ملو ّ ث ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچانا لازمی ہے۔ قومی سطح پر نظام تعلیم اور امتحان کے طریقہ میں پائے جا نے والی خامیوں کو دور کرنااور خاص طور پر ان امتحانات کے طریقہ پر غور کر نا چا ہئے جن کا تعلق سرکاری ملازمتوں سے ہو تا ہے اور ایجوکیشن مافیا کے ذریعہ امتحانات میں نقب زنی کو جیسے بھی ہو بند کیا جا ناضروری ہے تاکہ ہمارے نوجوان خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں اور اپنی محنت اور قابلیت کے بل پر اپنا مقام پا سکیں نہ کہ پیسہ کے بل پر وہ ڈگری اور ملازمت پائیں۔ورنہ چپراسی کی ملازمت سے لے کر افسر تک کی ملازمت کادھندہ اسی طرح چلتا رہے گااور امتحانات کے پیپر اسی طرح لیک کرا ئے جاتے رہیں گے۔
[email protected]